امريکا ميں سياسی تعطل کے خاتمے کے آثار
15 اکتوبر 2013سياسی تعطل کے خاتمے کے آثار پير کی شب ڈیموکریٹ سینیٹر ہیری ریڈ اور ری پبلکن سینیٹر مچ میک کونل کے درميان ہونے والے مذاکرات کے بعد سامنے آئے۔ سینیٹر ریڈ کے بقول مذاکرات میں قابل ذکر پیشرفت ہوئی ہے تاہم انہوں نے يہ بھی کہا کہ اس بارے میں ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ريڈ نے مزيد کہا کہ انہيں اميد ہے کہ اسی ہفتے اتفاق رائے قائم ہو جائے گا تاکہ حکومتی سرگرمياں بحال اور بلوں کی ادائيگياں ممکن ہو سکيں۔ ان کے اس بيان کا بازار حصص پر بھی مثبت اثر پڑا اور مارکيٹوں پر دباؤ ميں کمی ہوئی۔
بعد ازاں ری پبلکن سینیٹر مچ میک کونل نے بھی اميد ظاہر کی کہ کسی ايسے نتيجے تک پہنچا جا سکے گا جسے دونوں فريقين تسليم کر ليں۔ دریں اثناء قرضوں کی حد بڑھانے سے متعلق پیر کو وائٹ ہاؤس میں ہونے والے مذاکرات ملتوی کر دیے گئے ہیں تاکہ کسی معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے سینیٹرز کو زیادہ سے زیادہ وقت فراہم کیا جا سکے۔
امریکا کو اپنے مالیاتی مسائل کو سترہ اکتوبر تک حل کرنا ہو گا ورنہ اس کی معیشت کو شديد مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اسی بحران کی وجہ سے یکم اکتوبر سے متعدد وفاقی حکومتی ادارے جزوی بندش کا شکار ہیں۔
امريکا ميں جاری سياسی تعطل کی وجہ سے نہ صرف اندرون ملک بلکہ بين الاقوامی طور پر بھی پریشانی دیکھی جا سکتی ہے۔ جاپان اور چين، جنہوں نے مجموعی طور پر دو اعشاريہ چار ٹريلين امريکی ڈالر کے قرضے خرید رکھے ہيں، نے واشنگٹن پر زور ديا ہے کہ وہ جلد از جلد اپنے مالیاتی معاملات طے کرے۔ چين کے وزارت خارجہ کے ترجمان ہوا چن ينگ نے بيجنگ ميں جاری کردہ اپنے ايک بيان ميں کہا، ’’امريکا دنيا کی سب سے بڑی معيشت ہے اور ہم اميد کرتے ہيں کہ وہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرے گا۔‘‘
دريں اثناء بينک آف فرانس کے گورنر کرسٹيان نويئر نے متنبہ کيا کہ اس تعطلی کے خطرناک اثرات مرتب ہو سکتے ہيں۔ قبل ازيں بين الاقوامی مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف بھی يہ کہہ چکا ہے کہ امریکا اگر قرض ادا کرنے میں ناکام ہو گیا تو اس سے عالمی مالیاتی نظام کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔