امریکا کے اعلیٰ فوجی حکام کا افغانستان میں ناکامی کا اعتراف
29 ستمبر 2021امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کے اراکین نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا، دوحہ معاہدے کے بعد کی صورت حال، سقوط کابل اور طالبان کے اقتدار میں آنے سمیت افغانستان سے متعلق متعدد امور پر وزیر دفاع لائیڈ آسٹن، جوائنٹ چیفس کے چیئرمین جنرل مارک ملی اور امریکی سنٹرل کمان کے سربراہ جنرل فرینک میک کینزی سے چھ گھنٹے تک سخت سوالات پوچھے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق جب چیئرمین جوائنٹ چیفس آف ا سٹاف جنرل مارک ملی سے سوال کیا گیا کہ آیا انہوں نے افغانستان میں افواج کو برقرار رکھنے کی تجویز دی تھی؟ انہوں نے جواب دیا،” ہاں 2020 ء کے آخر میں میرا یہ اندازہ تھا اور بعد میں بھی رہا کہ ہمیں 2500 فوجیوں کی تعداد برقرار رکھنی چاہیے تاکہ بات چیت کے ذریعے کوئی حل نکل سکے۔"
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل کینیتھ میک کینزی کا بھی کہنا تھا کہ انہوں نے ذاتی طور پر سفارش کی تھی کہ 2500 امریکی فوجیوں کو افغانستان کی سرزمین پر موجود رہنا چاہیے۔
جنرل ملی نے کہاکہ طالبان دہشت گرد تنظیم تھی اور رہے گی۔ انہوں نے القاعدہ کے ساتھ اپنے روابط ختم نہیں کیے ہیں۔ انہوں نے کہا،'' یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا طالبان اپنی طاقت کو مضبوط بنا سکتے ہیں یا ملک مزید خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا، لیکن ہمیں کابل سے ہونے والے دہشت گرد حملوں سے امریکی شہریوں کو بچاتے رہنا ہوگا۔"
جنرل ملی نے کہا کہ القاعدہ یا داعش (خراسان) جیسے گروپ 12سے 36 ماہ کے دوران خود کو منظم کرسکتے ہیں اور وہ امریکا پر حملہ کرسکتے ہیں۔
’ہم ایک قوم کی تشکیل میں ناکام رہے‘
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن سے گزشتہ 20 برس تک افغانستان میں امریکا کی موجودگی کے حوالے سے جب پوچھا گیا کہ اس دوران ناکامی کی وجہ کیا رہی تو ان کا کہنا تھاکہ ہم نے افغان حکومت پر بہت زیادہ بھروسہ کرلیا تھا۔ اورامریکا افغان مسلح افواج میں موجود بدعنوانی کی گہرائی اور کمزور قیادت کو پوری طرح نہیں سمجھ سکا۔
’طالبان سے بات کیسے کی جائے‘، عالمی برادری کے لیے معمہ بن گیا
لائیڈ آسٹن کا کہنا تھا،” ہم نے ریاست کی تعمیر میں مدد کی لیکن ہم ایک قوم کی تشکیل میں ناکام رہے۔" انہوں نے مزید کہا،” یہ حقیقت ہے کہ ہم نے اور ہمارے شراکت داروں نے جس فوج کی تربیت کی وہ تتربتر ہو گئی۔ بہت سے کیسز میں اس نے ایک گولی بھی نہیں چلائی۔ ہمیں اس پر حیرت ہوئی۔ اس سلسلے میں کوئی اور دعویٰ کرنا بد دیانتی ہوگی۔"
امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ امریکا نے افغان فوج کو سازوسامان، طیارے اور مہارت فراہم کی تا کہ وہ اسے استعمال کرے لیکن آخر میں ہم انہیں جیتنے کا حوصلہ نہیں دے سکے۔
’بہت سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے‘
لائیڈ آسٹن اور جنرل ملی نے17 دنوں کے دوران کابل ہوائی اڈے سے ایک لاکھ 24 ہزار افراد کو ہوائی جہازوں کے ذریعہ نکالنے کے عمل کو ایک بڑی کامیابی قرا ردیا۔ انہوں نے تاہم کہا کہ افغانستان میں 20 سال کی فوجی کارروائیوں سے امریکا کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
آسٹن نے کہا کہ '' یہ امریکی تاریخ کا سب سے بڑا فضائی انخلا تھا جسے صرف 17 دنوں میں مکمل کیا گیا جس میں ہم نے ایک لاکھ 24 ہزارسے زیادہ افراد کو وہاں سے نکالا۔ ہم نے تیزی سے بہت سے لوگوں کو کابل سے باہر منتقل کیا جس کی وجہ سے انتظامات اور لوگوں کی اسکریننگ کے بعض مسائل پیداہو گئے۔‘‘
امریکی وزیر دفاع نے 26 اگست کو ہونے والے خودکش بم دھماکے پر افسوس کا اظہار بھی کیا جس میں کابل کے ہوائی اڈے پر 13 امریکی فوجی اہل کار اور 169 افغان شہری ہلاک ہوئے تھے اور اس کے کچھ دن بعد ایک ڈرون حملے میں 7 بچوں سمیت 10 افغان شہری مارے گئے تھے۔ تاہم امریکی وزیر دفاع نے منصوبہ بندی کے عمل کا دفاع کیا۔
افغانستان میں مبینہ جنگی جرائم: آئی سی سی کی تفتیش طالبان اور داعش تک محدود
سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے بعض اراکین کا کہنا تھا کہ 20 سالہ جنگ کا جس انداز میں خاتمہ ہوا وہ امریکا کے لیے شرمنا ک تھا۔
جنرل مارک ملی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے آخری دنوں میں اپنے چینی ہم منصب کو کی جانے والی ٹیلی فون کالز کے بارے میں بھی گواہی دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کالز کا مقصد کشیدگی کا خاتمہ تھا اور یہ کہ سابق صدر چین پر حملے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ جنرل ملی کا کہنا تھا،'' مجھے علم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ٹرمپ کا چین پر حملے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔"
ج ا/ ک م (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)