امریکہ میں خاتون کی سزائے موت پر عملدرآمد
24 ستمبر 2010ٹیریسا لیوئیس کو ورجینیا میں مقامی وقت کے مطابق شب نو بجے زہریلا انجکشن لگایا گیا۔ قبل ازیں لیوئیس نے اپنے خاندان کے افراد سے ملاقات کی۔ انہوں نے سوگواروں میں ایک بیٹا اور بیٹی چھوڑی ہے۔ انہوں نے اپنے آخری کھانے میں چکن، جرمن کیک یا ایپل پائے اور ڈاکٹر پیپر سوڈا کی فرمائش کی۔
اکتالیس سالہ ٹیریسا لیوئیس کی سزائے موت پر عملدرآمد سے یورپی یونین اور انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے رحم کی اپیلیں دھری کی دھری رہ گئیں۔
امریکی سپریم کورٹ نے سزائے موت پر عملدرآمد رکوانے کی ایک اپیل مسترد کر دی تھی جبکہ ورجینیا کے گورنر بوب میکڈونل نے بھی رحم کی اپیل رد کر دی تھی۔ انسانی حقوق کے گروپ آخری لمحات تک گورنر میکڈونل سے رحم کی اُمید لگائے بیٹھے رہے تاہم گورنر نے کہہ دیا تھا کہ وہ مداخلت نہیں کریں گے۔
ان پر اپنے شوہر اور سوتیلے بیٹے کو کرائے کے قاتلوں کے ذریعے قتل کرانے کا جرم ثابت ہو چکا ہے۔ ٹیریسا لیوئیس نے یہ قتل 2002ء میں انشورنس پالیسیوں کی رقم حاصل کرنے کے لئے کرائے۔
یورپی یونین نے جمعرات کو ایک مرتبہ پھر ورجینیا کے گورنر سے لیوئیس کے لئے رحم کی اپیل کی جبکہ انسانی حقوق کے متعدد گروپوں نے بھی ایسی ہی اپیلیں کیں۔
لیوئیس کی سزائے موت پر عملدرآمد کی مخالفت کرنے والے انہیں ذہنی بیمار قرار دے رہے تھے۔ وہ اس سزا کو عمر قید میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
ان کی سزا پر عملدرآمد سے وہ امریکی ریاست ورجینیا میں گزشتہ ایک سو برس میں موت کی سزا پانے والی پہلی خاتون بن گئی ہیں جبکہ امریکہ بھر میں گزشتہ پانچ برس کے دوران کسی خاتون کی سزائے موت پر عملدرآمد کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
امریکہ میں 1976ء میں سزائے موت کی بحالی کے بعد لیوئیس سمیت 12 خواتین کی سزا پر عملدرآمد ہوا ہے۔ اس سے پہلے ورجینیا میں 1912ء میں ایک جواں سالہ سیاہ فام لڑکی کی سزائے موت پر عملدرآمد ہوا تھا۔ اسے الیکٹرک چیئر کے ذریعے یہ سزا دی گئی تھی۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عاطف بلوچ