امن مذاکرات کی بنیادی شرط دہشت گردی کا خاتمہ ہوگی: افغان صدر
31 دسمبر 2015افغانستان، پاکستان، چین اور امریکا کے نمائندے 11 جنوری 2016ء کو پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں ان مذاکرات میں شمولیت کی غرض سے اکٹھے ہوں گے، جن میں جولائی کے ماہ سے جمود کے شکار امن مذاکرات کو دوبارہ سے شروع کرنے کی کوششوں پر بات چیت ہوگی۔ امن مذاکرات اُس وقت رُک گئے تھے جب طالبان لیڈر مُلا عمر کی دو سال قبل ہلاک ہوجانے کی خبر عام کی گئی تھی۔
مُلا عمر کی ہلاکت کے اعلان کے بعد طالبان کی صفوں میں مزید پھوٹ اور دراڑ پیدا ہو گئی جس کی اصل وجہ طالبان کی قیادت بنی۔ طالبان کے مختلف گروپوں کے مابین لیڈر شپ کی جانشینی کا تنازعہ خونریز ثابت ہوا۔ مُلا عمر کے نائب مُلا اختر منصور کی بطور نئے لیڈر قانونی حیثیت کو عسکیرت پسندوں کے چند حلقوں نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ مُلا اختر منصور نے جولائی 2015 ء میں طالبان کے نئے لیڈر کی حیثیت سے مُلا عمر کی جانشینی اختیار کر لی تھی۔
ان کے مخالفین جو انہیں پاکستان کا مرہون منت قرار دیتے ہیں، کی طرف سے اُن پر سب سے بڑا چارج یہ لگایا گیا کہ انہوں نے مُلا عمر کی ہلاکت کی خبر کو اتنے طویل عرصے تک چھُپایا۔
جمعرات کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر اشرف غنی نے کہا،’’ ظاہر ہے کہ طالبان کی کوئی متحد تحریک نہیں پائی جاتی بلکہ یہ گروپوں میں تقسیم ہیں۔ اس مقام پر بنیادی مسئلہ پسند یا انتخاب کا ہے۔ امن کا انتخاب کیا جائے یا دہشت گردی کا؟‘‘ افغان صدر نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ’’ دہشت گردی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا‘‘۔
اسلام آباد میں امن مذاکرات کے سلسلے میں آئندہ ماہ کے مجوزہ اجلاس کے بعد کابل میں ایک اور اہم مقابلہ متوقع ہے جب نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی ابتدائی طور پر افغان حکومت کی نمائندگی کریں گے۔
امریکا اور چین طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی بحالی پر مسلسل زور دیتے رہے ہیں تاہم اسلام آباد اور کابل کے مابین باہمی شکوک و شبہات اور طالبان کے اندر مختلف دھڑوں میں ہونے والی جنگ مذاکرات کے عمل کو روکے رکھا۔
افغانستان ایک عرصے سے پاکستان پر طالبان کی پشت پناہی اور انہیں محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کا الزام عائد کرتا آیا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ایک طویل عرصے سے طالبان کی بغاوت کی کفالت کر رہا ہے اور اس طرح وہ کابل کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتا ہے۔ یہ اور اس جیسے دیگر الزامات کو پاکستان مسترد کرتا رہتا ہے۔
واضح رہے کہ طالبان کے ایک مرکزی دھڑے نے مجوزہ امن مذاکرات میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ جب تک افغانستان میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے تربیتی اور معاون مشن میں غیر ملکی افواج شامل رہیں گی تب تک وہ کسی قسم کے مذاکرات میں شامل نہیں ہوں گے۔
طالبان کی صفوں میں دراڑ پڑنے اور اس کی قیادت سے متعلق تنازعات کے باوجود، اس کی تحریک میں اضافہ ہوا ہے اوراس سال اس کی پیش قدمی نے افغان فورسز کو بھاری جانی نقصان پہنچایا ہے۔ سب سے زیادہ جانی نقصان تاہم گزشتہ سال بڑی تعداد میں غیر ملکی فورسز کے انخلاء کے بعد سے خود افغان فورسز کو پہنچا ہے۔