انسانی جنسی عمل سے کینسر کا باعث بننے والا وائرس، پاپیلوما
28 اگست 2021چوالیس سالہ جیسن مینڈلسن سن 2014 میں شدید بیمار ہو گئے اور بعد میں کلینیکل تشخیص سے معلوم ہوا کہ انہیں چوتھے لیول کے ٹانسلز کینسر کا سامنا ہے۔ یہ کینسر پاپیلوما وائرس (HPV) کی وجہ سے ان میں پھیلا تھا۔ آپریشن سے ڈاکٹروں نے ان کے ٹانسلز اور کم از کم بیالیس لِمف نوڈز بھی گلے سے نکال دیے۔
کینسر کے خلاف ایم آر این اے ویکسین مؤثر ہو گی؟
اس سرجری کے بعد انہیں سات ہفتے کی کیمیوتھراپی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی زبان، گلے اور ٹانسلز لے کنیسر بارے نہیں سنا تھا۔ ان کے ڈاکٹر کے مطابق جیسن مینڈلسن میں ٹانسلز کے کینسر کی افزئش پاپیلونا وائرس سے ہوئی اور یہ وائرس کسی ایسی خاتون کے ساتھ جنسی تعلق کے باعث منتقل ہوا، جس میں رحم کا کینسر موجود تھا۔
پاپیلوما وائرس کسی بھی انسان میں برسوں موجود رہنے کے بعد حلق یا مقعد کے کینسر کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔
سروائیکل کینسر
ماہرین کا خیال ہے کہ کسی بھی عورت کے رحم کے نچلے حصے یا سروائیکل میں افزائش پانے والے کینسر سے بھی ایچ پی وی کسی دوسرے انسان میں منتقل ہو سکتا ہے اور پھر کئی برس انسانی جسم میں چھپ کر رہنے والا یہ وائرس ٹانسلز کے کینسر کی صورت میں نمودار ہو سکتا ہے۔
برا اور چھاتی کا سرطان، کچھ من گھڑت دعوے
سروائیکل کینسر خواتین میں پائے جانے والے کینسروں میں چوتھا سب سے زیادہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2018 میں دنیا بھر میں سروائیکل کینسر سے تین لاکھ سے زائد خواتین کی موت واقع ہوئی تھی۔ یہ زیادہ تر متوسط اور کم آمدنی والے ممالک میں پایا جاتا ہے۔
ایسے کینسر کی وجہ سے مردوں یں منہ اور سانس کی نالی اور حلق (oropharyngeal) کے علاوہ مقعد کے کینسر بھی جنم لیتے ہیں۔ بیماریوں کے انسداد کے ادارے سی ڈی سی کے مطابق امریکا میں ستر فیصد منہ اور سانس کی نالی کے کینسر کی وجہ پاپیلوما وائرس یا ایچ پی وی ہوتا ہے۔
پاپیلوما وائرس کینسر کا باعث
امریکا میں ہر سال ساڑھے تین ہزار خواتین اور سولہ ہزار دو سو مردوں میں پاپیلوما وائرس یا ایچ پی وی کی وجہ سے سے پیدا ہونے کینسر کی تشخیص کی جاتی ہے۔ ان اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ مردوں میں ایچ پی وی سے پیدا ہونے والا کینسر عورتوں کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے۔ یہ وائرس جنسی عمل کے دوران ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا ہے۔ اس کی منتقلی رحم، اینل اور اورل سیکس سے ہو سکتی ہے۔
شہد کی مکھی کا زہر ہزاروں عورتوں کی زندگیاں بچا سکتا ہے
ایچ پی وی کی کسی انسان میں منتقلی کے بعد نوے فیصد انسانی جسم انہیں خارج کر دیتے ہیں اور جن میں یہ رہ جاتے ہیں ان میں دو برس تک انفیکشن کا پتہ ہی نہیں چلتا اور اس عرصے کے بعد پریشان کن صورت حال جنم لیتی ہے۔
ایچ پی وائرس بارے آگہی
برطانیہ میں سن 2018 کی ایک ریسرچ سے معلوم ہوا کہ 64 فیصد والدین، جن کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں، وہ ایچ پی وی وائرس کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں۔ صرف لڑکوں کے والدین کی 36 فیصد تعداد اس وائرس کے بارے میں معلومات رکھتی تھی۔ مجموعی طور پر پچپن فیصد والدین اس وائرس کے مہلک ہونے سے آگاہ تھے۔
ایسے والدین کو اس وائرس بارے معلومات سروائیکل کینسر کی وجہ سے ملی تھیں۔ ان میں نصف یہ جانتے تھے کہ ایچ پی وائرس سے حلق اور مقعد کے کینسر ہو سکتا ہے۔ اس وائرس سے کسی مرد کے عضو تناسل میں بھی کنیسر کی افزائش ممکن ہے۔ بہت ہی کم والدین یہ جانتے تھے کہ اینل اور اورل سیکس سے بھی پاپیلوما کے وائرس کی منتقلی ہو سکتی ہے۔
بھارت: ہر دس میں سے ایک شخص کو کینسر ہونے کا خدشہ
کینسر سے بچاؤ کی ویکسین تو دستیاب نہیں لیکن پاپیلوما وائرس یا ایچ پی وی سے ممکنہ بچاؤ کی ویکسین موجود ہے۔ اس وائرس سے بچاؤ کی تین مختلف ویکسینیں ہیں اور سبھی مؤثر ہیں۔
لوئیزا رائٹ (ع ح/ ش ح)