انٹرنیٹ کے ذریعے شہرت دیرپا نہیں
7 اپریل 2011آجکل نوجوانوں میں انٹرنیٹ کے ذریعے مشہور ہونے کے لیےجو طریقہ سب سے زیادہ مقبول ہے وہ ہے ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ یو ٹیوب پر اپنی ویڈیو اپ لوڈ کرنا۔ اس طریقہ کو استعمال کرنے والے نوجوان تو ہزاروں ہیں تاہم ان میں سے چند ہی ایسے ہیں جو بے پناہ مقبولیت کا تاج اپنے سر پر سجانے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ دوسری طرف انٹرنیٹ کی وجہ سے نوجوانوں کو بعض اوقات شدید مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
یہ 2008ء کی بات ہے جب فنکاروں کو پروموٹ کرنے کے حوالے سے شہرت رکھنے والے سکوٹر براؤن نے یو ٹیوب کے ذریعے ایک نوجوان جسٹن بائیبر کو دریافت کیا تھا۔ براؤن اب جسٹن بائیبر کے منیجر بھی ہیں۔ جسٹن نے ایک معروف گلوکارہ کا گانا اپنی آواز میں ریکارڈ کر کے یوٹیوب پر ڈالا تھا جس نے نہایت شہرت حاصل کی۔ آج یہ 17 سالہ نوجوان گلوکار اپنے ہم عصر گلوکاروں کو مات دیتے ہوئے دولت شہرت اور کامیابی کی منزلیں طے کرتا جا رہا ہے۔ وہ پہلا فنکار کے جس کے پہلے ہی البم کے سات گانے 'Billboard Hot 100' میں شامل ہوئے۔
اسی طرح آج کل ایک اور با صلاحیت نوجوان لڑکی کی دھوم مچی ہوئی ہے اور وہ ہے امریکہ کی 13 سالہ پاپ گلوکارہ ریبیکا بلیک جس نے اس برس اپنے گانے ٫فرائی ڈے’ سے بے پناہ شہرت حاصل کی ہے ۔ اس گانے کو اب تک یو ٹیٰوب پر 57 ملین بار دیکھا جا چکا ہے۔ اب وہ اپنے ذاتی گانوں کے البم کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
بلیک سے قبل کینڈا کی 10 سالہ ماریا اراگون نے معروف امریکی گلوکارہ لیڈی گا گا کے گانے’ Born this way‘ کو اپنی آواز میں یوٹیوب پر ڈال کر بہت شہرت حاصل کی تھی۔ گو کہ اراگون کے گائے ہوئے گانے کی ویڈیو ان کے گھر میں ہی بنائی گئی تھی تاہم بلیک کے گانے کی ویڈیو پر ان کے والدین نے 2 ہزار ڈالر خرچ کیے۔
یہ وہ چند مثالیں ہیں جن سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح نہ صرف نوجوان شہرت حاصل کرنے کے آرزومند ہیں بلکہ ان کے والدین بھی ان کی شہرت حاصل کرنے کی لگن میں برابری کی سطح پر شامل ہیں۔ تاہم یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اکثر اوقات انٹرنیٹ سے ملنے والی شہرت بہت جلد پس پردہ بھی چلی جاتی ہے۔
جہاں انٹرنیٹ کو مقبولیت اور اپنی شخصیت کو دوسروں سے نمایاں کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے وہیں اس کے نقصانات بھی ان نوجوانوں کو اٹھانے پڑتے ہیں جن کے پاس ضروری صلاحیتوں کی یا تو کمی ہوتی ہے یا پھر وہ ظاہری طور پر غیر معمولی شخصیت کے حامل ہوتے ہیں۔
ایسے میں بعض اوقات کم عمر بچے انٹرنیٹ پر ڈرانے دھمکانے اور مذاق کا شکار بھی آسانی سے بن جاتے ہیں۔ ایسے واقعات سنجیدہ ذہنی مسائل کا سبب بھی بن سکتے ہیں ۔ اس کی ایک مثال میسوری سے تعلق رکھنے والی 13 سالہ میگن تھی جو خود کشی کے ذریعے اپنی زندگی کا خاتمی کر چکی ہے۔
میگن نے اکتوبر 2006 میں اپنی 14 ویں سالگرہ سے تین ہفتے قبل سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ ’مائی اسپیس‘ پر دوسرے بچوں کے ہاتھوں مزاق کا نشانہ بننے کے بعد گلے میں پھندا ڈال کر خود کشی کر لی تھی۔
انٹرنیٹ کے ذریعے نوجوانوں کا شہرت حاصل کرنا تو شاید اب آسان ہوتا جا رہا ہے تاہم ہر ایک کو اس میں پائیدار کامیابی ملنا انٹرنیٹ کے اس تیز ترین دور میں شاید آج بھی ممکن نہیں۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ
ادارت: افسر اعوان