اوباما اور کیمرون کا اختلاف رائے کے اظہار سے اجتناب
21 جولائی 2010رواں سال مئی میں وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد ڈیوڈ کیمرون کا یہ امریکہ کا پہلا دور ہ ہے۔ کیمرون کی قدامت پسند حکومت اور اوباما کی ڈیموکریٹک انتظامیہ کے درمیان اقتصادی اور خارجہ پالیسی میں بعض اختلافات پائے جاتے ہیں۔
حالیہ ملاقات میں البتہ دونوں رہنماوں نے دوستانہ طرز عمل اختیار کیا اور ایک دوسرے کو پہلے نام یعنی ڈیوڈ اور باراک سے پکارا۔
لاکربی بم حملے میں ملوث لیبیا کے شہری عبدالباسط المغراہی کی برطانیہ سے رہائی کو امریکہ میں پسند نہیں کیا جارہا۔ تاہم دونوں رہنماوں نے ایسا تاثر دینے کی کوشش کی کہ اس کی ذمہ دار سابق برطانوی حکومت تھی۔
وائٹ ہاؤس میں کیمرون نے معاملے کی از سر نو جانچ کا یقین دلایا۔ واشنگٹن میں بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اس رہائی کے پیچھے برٹش پیٹرولیم کے لیبیا میں اقتصادی مفادات کار فرما تھے۔ بی پی کو امریکہ میں خلیج میکسیکو میں بہہ جانے والے لاکھوں بیرل تیل کے باعث امریکہ میں پہلے ہی کڑی تنقید کا سامنا ہے۔
ڈیوڈ کیمرون نے امریکیوں کو باور کرانے کی کوشش کی کہ بی پی کا المغراہی کی رہائی میں کوئی کردار نہیں۔ کیمرون پر بی پی کے حوالے سے دہرا دباؤ ہے۔ برطانیہ میں ان سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ ملک کی اس نمایاں کمپنی کا امریکہ میں بہترین دفاع کریں جہاں اسے ’ بے جا تنقید‘ کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں انہوں نے کہا، ’خلیج میکسیکو میں تیل کا بہاؤ ایک المیہ ہے، یہ بی پی کی ذمہ داری ہے کہ بہاؤ کو روکے، صفائی کرے اور متاثرین کو مناسب معاوضہ فراہم کرے، تاہم ہمیں تیل کے اخراج اور لاکربی حملے کے ملزم کا معاملہ گڈمڈ نہیں کرنا چاہئے۔‘
دونوں ملک اقتصادی ترقی کے لئے اپنے اپنے طریقہ ء کار پر عمل پیرا ہیں۔ واشنگٹن کی خواہش ہے کہ دیگر ممالک بھی اخراجات میں کٹوتی نہ کریں، اس طرح کاروبار بڑھے گا اور اقتصادی بحالی ممکن ہوسکے گی۔
لندن کی پیروی میں یورپی اور بعض دیگر ممالک البتہ اس فلسفے پر عمل پیرا ہیں کہ بے جا اخراجات کا راستہ روکا جائے اور بچت کے ذریعے اقتصادی بحالی ممکن کی جائے۔ اوباما اس حوالے سے 862 ملین ڈالر کے منصوبے پر سوچ وبچار کر رہے ہیں۔ دوسری جانب کیمرون حکومتی اخراجات میں نمایاں کمی کا سوچ رہے ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں انہوں نے کہا، ’ہمارا نصب العین پائیدار اور مستحکم اقتصادی بحالی ہے۔ ‘
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: ندیم گِل