اوباما کی روسی صدر پوٹن پر سخت تنقید
16 نومبر 2014یہ پہلا موقع نہیں کہ امریکی صدر اوباما نے روس اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن پر یوکرائن میں جاری بحران اور خانہ جنگی کے حوالے سے تنقید کی ہو۔ تاہم آسٹریلیا میں ہونے والے جی بیس ممالک کے سربراہی اجلاس میں سفارتی احتیاط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اوباما نے پوٹن اور روس پر کڑی تنقید کر ڈالی۔
اوباما نے یورپی رہنماؤں سے ملاقات اور مشرقی یوکرائن میں روس نواز علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں پر تبادلہ خیال کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کچھ یہ کہا: ’’امریکا اور یورپی ممالک روس پر نئی پابندیاں لگانے پر غور کر رہے ہیں تاہم اس وقت جو پابندیاں عائد ہیں وہ با اثر ہیں۔‘‘
اوباما کا مزید کہنا تھا: ’’ہم بین الاقوامی اصولوں پر کار بند ہیں۔ ایک اصول تو یہ ہے کہ کسی ملک کی فوجوں کو کسی دوسرے ملک میں داخل ہونے کا حق نہیں اور نہ ہی کسی ملک میں اپنے حامیوں کی مالی امداد کا یا اس طرح کی مدد کا جس سے ملک کے ٹوٹنے کا خطرہ ہو۔‘‘
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ جی ٹوئنٹی اجلاس کے موقع پر ان کی روسی صدر پوٹن سے جو ملاقاتیں ہوئیں وہ خالصتاً ’’کام سے متعلق اور کھری‘‘ تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر روس یوکرائن کے تنازعے کے حوالے سے دوسرا راستہ اختیار نہیں کرتا تو اسے بین الاقوامی تعلقات میں مزید تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پوٹن صدر اوباما کی آسٹریلیا سے رخصتی سے قبل روس واپس لوٹ گئے۔ جی بیس ممالک کے سربراہی اجلاس پر یوکرائن کا بحران حاوی رہا اور یورپی رہنماؤں نے روسی صدر سے اس حوالے سے طویل بات چیت کی۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے علاوہ اس کانفرنس میں فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ اور برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون بھی شریک تھے۔
قبل ازیں امریکی محکمہ خارجہ نے تفصیلات جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے یوکرائن کے علیحدگی پسندوں کے لیے روس کی بڑھتی ہوئی حمایت پر ’’گہری تشویش‘‘ کا اظہار کیا ہے۔ کیری نے اپنے روسی ہم منصب سیرگئی لاوروف کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران مِنسک معاہدے کے نفاذ پر زور دیا۔ یہ معاہدہ فائر بندی، سرحدی نگرانی، یرغمالیوں کی رہائی اور مذاکرات کی میز پر واپسی پر زور دیتا ہے۔