ايغور کمیونٹی پر جاری ظلم و ستم: جرمنی کو بھی شدید تشویش
20 فروری 2020اس خفیہ دستاویز کے عام ہونے سے معلوم ہوا ہے کہ مقید ایغور افراد کو کس طرح کی نگرانی میں رکھا گیا ہے۔ اس عام ہونے والی دستاویز میں قیدیوں کے بارے جہاں تفصیلات موجود ہیں وہاں اُن کے سینکڑوں رشتہ داروں اور دوست احباب کی معلومات بھی دستیاب ہے۔ اس افشا ہونے والی دستاویز میں دو ہزار سے زائد مقید افراد کے کوائف سامنے آئے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے مطابق ان میں سے بعض ناموں کی تصدیقی عمل سے معلوم ہوا ہے کہ وہ جبری مشقتی کیمپوں میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔
جرمن حکومت کے کمیشنر برائے عالمی مذہبی آزادی مارکوس گرؤبل نے اس افشا ہونے والی دستاویز یر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایغوروں کو درپیش صورت حال ناقابل قبول ہے۔ حکمران سیاسی جماعت کے کرسیچیئن ڈیموکریٹ یونین کے رہنما گرُؤبل نے حکومتی تشویش کا اظہار ڈوئچے ویلے سے گفتگو کے دوران کیا اور واضح کیا کہ عقیدے کی بنیاد پر لوگوں کا مقید کرنا جائز نہیں ہے۔
مارکوس گرُؤبل نے یہ بھی کہا کہ ایغور افراد کو جبری طور پر اُن کے خاندان اور بچوں سے جدا کر کے ایسے کیمپوں میں پابند کر دیا گیا ہے، جہاں ان افراد کے شب و روز کے معمولات مسلسل چینی حکومت کی نگرانی میں ہیں۔ جرمن حکومت کے عالمی مذہبی آزادی کے کمیشنر نے اقوام متحدہ سے اس صورت حال کی آزادانہ تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ چینی حکومت ان اذیتی کیمپوں کے حوالے سے عالمی تشویش کو مسترد کرتی ہے۔
جرمن مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے چیئرمین ایمان ماسیک کا کہنا ہے کہ اکیسویں صدی میں ایسی دستاویز کا سامنے آنے سے ظاہر ہوا ہے کہ چین کے ایغور مسلمانوں کو تباہ کن صورت حال کا سامنا ہے اور اس نسل کو انسانی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ ماسیک کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ دستاویز ظاہر کرتی ہے کہ چین کے یہ مشقتی کیمپ حقیقت میں غلام بنانے کی مشینیں ہیں۔
ماسیک نے یہ بھی کہا کہ وہ دور حاضر کی نسل انسانی کا حصہ ہونے پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں اور ایسی ہی کیفیت یقینی طور پر دنیا بھر کے بقیہ مسلمانوں کی بھی ہے کیونکہ وہ مجموعی طور پر اتنے کمزور ہیں کہ اس جابرانہ صورت حال اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں کے خلاف مشترکہ طور پر کھڑے ہونے سے قاصر ہیں۔
جرمن پارلیمنٹ بنڈس ٹاگ میں انسانی حقوق کی امدادی کمیٹی کے سربراہ گوُڈے ژینسن (Gyde Jensen) نے اجتماعی سیاسی ایکشن کو وقت کی ضرورت قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی کمیونٹی کو چینی علاقے سنکیانگ میں ہونے والی انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر ہونے والی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیتے ہوئے مداخلت کرے۔ انہوں نے یورپی یونین کی سطح پر چین کے خلاف پابندیوں کے نفاذ کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
ہیلینا کاشل (ع ح ⁄ ب ج)