اٹلی ایک سال بعد بھی زیر آب مہاجرین کی تلاش میں
6 اپریل 2016جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی روم سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اطالوی وزارت داخلہ کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ اٹلی گزشتہ برس بحیرہ روم میں ڈوبنے والے تارکین وطن کی لاشیں تلاش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
’تارکین وطن کو اٹلی سے بھی ملک بدر کر دیا جائے‘
پاکستانی مہاجرین کو وطن واپس جانا پڑے گا، ترکی
گزشتہ برس اٹھارہ اپریل کے روز سینکڑوں مہاجرین اور تارکین وطن سے لدا ایک بحری جہاز لیبیا سے اٹلی کی جانب سفر کرتے ہوئے ڈوب گیا تھا۔ لیبیا کی سرحد سے 157 کلو میٹر دور اور سمندر کے 375 میٹر گہرے پانی میں ڈوبے ہوئے اس بحری جہاز میں سینکڑوں تارکین وطن کی لاشوں کی موجودگی کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
اطالوی وزارت داخلہ کے اہلکار ویتوریو پِشیتیلی نے نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ اطالوی بحریہ کے خیال میں بحری جہاز میں کم از کم چار سو پناہ گزینوں کی لاشیں موجود ہو سکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’یہ صرف ایک اندازہ ہے، حقیقی تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔‘‘
تفصیلات کے مطابق بحری جہاز کو گہرے پانیوں سے نکال کر نیٹو کی بحری بیس تک پہنچایا جائے گا جس کے بعد فرانزک ٹیم جہاز سے ملنے والی لاشوں کی شناخت کرے گی۔
گزشتہ برس حادثے کے فوراﹰ بعد امدادی اہلکاروں نے اٹھائیس افراد کو ڈوبنے سے بچا لیا تھا جب کہ چوبیس لاشیں بھی نکال لی گئی تھیں۔ بعد ازاں مزید 118 لاشیں برآمد کی گئی تھیں تاہم جہاز کے اندر پھنسے تارکین وطن کی لاشیں نہیں نکالی جا سکی تھیں۔
گزشتہ برس مئی کے مہینے میں اطالوی وزیراعظم ماتیو رینزی نے کہا تھا کہ سمندر کے گہرے پانیوں میں موجود ان پناہ گزینوں کی لاشیں نکالنا اٹلی کے لیے قومی وقار کا معاملہ ہے۔
حادثے کے ایک ماہ بعد رینزی نے کہا تھا، ’’ہم سمندر میں ڈوبے اس جہاز کو کھینچ کر باہر نکالیں گے اور اس حادثے کے بارے میں پوری دنیا کو بتانا چاہتے ہیں۔ کچھ لوگ جو سوچتے ہیں کہ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل، یہ ناقابل قبول ہے۔‘‘