ایرانی اعلان کے بعد کشیدگی میں اضافہ
18 جون 2019ایرانی حکام کی طرف سے پیر 17 جون کو اعلان کیا گیا کہ وہ آئندہ دس دنوں کے اندر اپنے یورینیم کے ذخائر میں اس حد سے اضافہ کر لیں گے جو عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے میں طے کی گئی ہیں۔ اس اعلان کے بعد اس جوہری معاہدے کو بچانے کی کوشش میں مصروف یورپی اقوام پر دباؤ مزید بڑھ گیا ہے جس سے امریکا ایک سال قبل یکطرفہ طور پر الگ ہو گیا تھا۔ واشنگٹن حکومت کا یہی فیصلہ امریکا اور تہران کے درمیان موجودہ تناؤ کی بنیادی وجہ بھی۔
ایران کے اعلان کے چند گھنٹے بعد ہی پینٹاگون کی طرف سے یہ کہا گیا کہ وہ ایک ہزار مزید فوجی مشرق وُسطیٰ بھیج رہا ہے تاکہ اس علاقے میں امریکی حکام کے بقول ایرانی خطرے سے نمٹنے کے لیے سکیورٹی میں اضافہ کیا جا سکے۔
خیال رہے کہ ایرانی صدر حسن روحانی نے پہلے ہی یورپ کو متنبہ کیا تھا کہ سات جولائی تک ایک نیا معاہدہ طے ہو جانا چاہیے ورنہ ایران اپنی یورینیم کی افزودگی میں اضافہ کر دے گا۔ ایرانی اٹامک انرجی کے ترجمان بہروز کمال وندی نے پیر کے روز کہا کہ ایران کی طرف سے یورینیم کی افزودگی کی شرح 20 فیصد تک کر دی جائے گی۔ یہ حد جوہری مقصد کے لیے درکار یورینیم سے محض ایک قدم دور ہے۔
ایرانی اعلان کے بعد بظاہر یہی دکھائی دے رہا ہے کہ تہران حکومت نے دنیا پر اسی طرح زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کا فیصلہ کر لیا ہے جیسا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے خلاف اس کے تیل کی فروخت کا راستہ روک کر اور دیگر اقتصادی پابندیاں عائد کر کے ڈال رہے ہیں۔ یورپ ابھی تک اس امریکی دباؤ کے برخلاف ایران کی کچھ زیادہ مدد کرنے کے قابل نہیں ہو سکا۔
مشرق وسطیٰ میں یہ تازہ صورتحال خلیج عمان میں گزشتہ ہفتے دو آئل ٹینکرز کو نشانہ بنائے جانے کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ امریکا اور برطانیہ نے ان حملوں کی ذمہ داری ایران پر عائد کی ہے تاہم تہران نے اس سے کسی قسم کا تعلق ہونے کی تردید کی ہے۔
ایرانی جوہری ایجنسی کے ترجمان کمال وندی نے پیر 17 جون کو مزید کہا کہ تہران کے خلاف پابندیوں کی صورتحال اگر برقرار رہی تو جوہری معاہدے پر عمدرآمد کا سلسلہ برقرار نہیں رہے گا۔ انہوں نے یورپی اقوام پر الزام عائد کیا کہ وہ محض وقت گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی پیر 17 جون کو فرانس کے نئی سفیر کو تہران میں خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ جوہری معاہدے کے حوالے سے وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔
ا ب ا / ا ا (ایسوسی ایٹڈ پریس)