"ایران ابھی ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کے قابل نہیں"
2 ستمبر 2009سڑسٹھ سالہ البارادئی نے یہ باتیں جوہری توانائی سے متعلق جریدے ’’بلٹن آف دا اٹامک سائنٹسٹس‘‘ کے ساتھ اُس انٹرویو میں کہی ہیں، جو جولائی میں کیا گیا تھا اور یکم ستمبر بروز منگل شائع ہوا ہے۔ اِس میں اُنہوں نے زور دے کر کہا ہے کہ ایسے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں، جن سے تہران حکومت کے کسی فعال ایٹمی پروگرام کا پتہ چلتا ہو۔
البارادئی کے مطابق اِس کے باوجود کسی نہ کسی طرح سے بہت سے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایرانی ایٹمی پروگرام دنیا کا سب سے بڑا خطرہ ہے جبکہ اُن کے خیال میں کئی حوالوں سے اِس خطرے کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ البارادئی نے کہا کہ لوگ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے خدشات کا اظہار ایرانی حکومت کی مستقبل کی پالیسیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے کرتے ہیں۔ اِس پس منظر میں البارادئی نے ایران سے مطالبہ کیا کہ اُسے آئندہ شفاف پالیسیاں اختیار کرنی چاہییں۔
آئی اے ای اے کے سربراہ بارہ برسوں تک اِس عہدے پر کام کرنے کے بعد اِس سال نومبر میں اِس عہدے سے رخصت ہو رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا: ’’جہاں تک اِس سوچ کا تعلق ہے کہ ہم کل صبح جاگیں اور پتہ چلے کہ ایران کے پاس تو ایک ایٹمی ہتھیار ہے، یہ ایک ایسا تصور ہے، جس کی وہ حقائق اور اعدادوشمار تصدیق نہیں کرتے، جو اب تک ہم نے دیکھے ہیں۔‘‘
ایران کے خلاف پابندیاں مزید سخت کرنے کے حوالے سے محتاط طرزِ عمل اختیار کرنے پر زور دیتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ پابندیاں بالکل آخری حربہ ہونی چاہییں۔ البارادئی کے مطابق ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ آخر میں یہ پابندیاں عام آبادی کو متاثر کریں۔ اُنہوں نے کہا کہ عراق کے معاملے میں بھی یہی ہوا تھا کہ پابندیوں کے باعث کمزور اور بے گناہ شہریوں کی اَشیائے خوراک اور اَدویات تک رسائی ختم ہو گئی تھی۔ آئی اے ای اےکے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ شمالی کوریا اور عراق کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ پابندیوں کے مقابلے میں مکالمت کہیں زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے۔
رپورٹ : امجد علی
ادارت : عاطف توقیر