ایران پر پابندیاں: ’مذاکرات جاری رہیں گے‘
9 اپریل 2010اس اجلاس میں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی نے حصہ لیا۔ بعدازاں اقوام متحدہ میں روس اور چین کے سفارت کاروں نے مذاکرات کو تعمیری قرار دیا۔ امریکی سفیر سوزن رائس نے بھی مذاکرات کے اس دور کو حوصلہ افزاء قرار دیا۔
رائس نے جمعرات کو مذاکرات سے قبل ہی کہہ دیا تھا کہ اس حوالے سے فیصلہ کب تک ہو گا، وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتیں۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئندہ چند ہفتوں میں نتیجہ سامنے آ جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ بات چیت کا یہ عمل نیویارک اور دیگر ممالک کے دارالحکومتوں میں جاری رہے گا۔ ان کے روسی ہم منصب ویٹالی چُرکن نے کہا کہ اجلاس کے دوران تعمیری تجاویز سامنے آئی ہیں۔
اقوام متحدہ میں چین کے اعلیٰ سفارت کار لی بوڈونگ نے کہا کہ مذاکراتی عمل میں شریک ممالک مسئلے کا سفارتی حل تلاش کرنے کی کوشش جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا: ’بیجنگ حکومت ایران کے جوہری تنازعے پر ’ٹو ٹریک‘ حکمت عملی اختیار کئے ہوئے ہے، جس میں ایران کی جانب سے نیوکلیئر پروگرام روکنے پر تہران کے لئے سیاسی اور اقتصادی مراعات کی پیش کش ہے جبکہ ایسا نہ کرنے پر پابندیوں کی دھمکی دی گئی ہے۔ ہم پہلی حکمت عملی میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔‘
واضح رہے کہ چین گزشتہ کئی ہفتوں سے ایران کے خلاف پابندیوں کے مسودے کی تیاری کے لئے کسی نہ کسی طرح مذاکرات کو ٹالتا رہا ہے۔ بیجنگ حکام نے سفارت کاروں کی سطح کے ان مذاکرات میں شرکت پر رضامندی گزشتہ ہفتے ظاہر کی تھی۔
ان مذاکرات میں برطانیہ، چین، فرانس اور جرمنی کے سفارت کار بھی شریک تھے، جنہوں نے ایران کے محافظین انقلاب کہلانے والے گارڈز کے خلاف پابندیوں کے مسودے پر غور کیا۔ ایران کی اس فورس پر جوہری پھیلاؤ کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔
جمعرات کو ہی چیک جمہوریہ کے دارالحکومت پراگ میں ایٹمی ہتھیاروں میں تخفیف کے ایک معاہدے پر دستخطوں کے بعد امریکی صدر باراک اوباما اور ان کے روسی ہم منصب دیمتری میدویدیف نے بھی ایران کو ممکنہ پابندیوں سے خبردار کیا۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا مؤقف ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کی آڑ میں ایٹمی ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تاہم تہران حکومت کا مؤقف ہے کہ اس کا نیوکلیئر پروگرام پر امن مقاصد کے لئے ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: مقبول ملک