امریکا نے اعلی چینی حکام پر پابندی عائد کردی
10 جولائی 2020امریکا نے ان سینیئر حکام پر پابندی عائد کر نے کا فیصلہ ایسے وقت کیا ہے جب کورونا وبا، انسانی حقوق، ہانگ کانگ اور تجارت جیسے امور پر بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات میں کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس نئی پیش رفت کے بعد دونوں ملکوں کے مابین تعلقات مزید کشیدہ ہوجانے اور بیجنگ کی طرف سے بھی سخت جوابی اقدامات کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے جن چینی اعلی افسران کے خلاف پابندیاں عائد کی ہیں ان میں چین کے طاقت ور پولٹ بیورو کے رکن شین کوان گو، خطے کے پارٹی کے ایک سابق معاون سیکرٹری زوہیلم، سنکیانگ کے پبلک سیکورٹی کے ڈائریکٹر اور کمیونسٹ پارٹی کے سکریٹری وینگ منگ شون اور بیورو کے سابق پارٹی سیکرٹری ہولیو جون شامل ہیں۔ خیال رہے کہ شین کوان گو کو اقلیتوں کے خلاف بیجنگ کا پالیسی ساز سمجھا جاتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق شین کوان گو امریکی پابندیوں کی زد میں آنے والے اب تک کے اعلی ترین چینی عہدیدار ہیں۔
ایک دن قبل ہی امریکا نے ان چینی حکام پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا تھا جو غیرملکیوں کو تبت جانے پررخنہ ڈالنے کے لیے ذمہ دار ہیں۔ تاہم امریکا کے اس تازہ قدم کا اثر چین کی سینیئر سطح کی قیادت پر پڑے گا اور اس نئی پیش رفت کے بعدامریکا اور چین کے مابین تعلقات میں مزید کشیدگی اور بیجنگ کی طرف سے بھی سخت جوابی اقدامات کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
یہ پابندیاں 'گلوبل میگنسکی ایکٹ' کے تحت عائد کی گئی ہیں۔ اس امریکی قانون کی رو سے دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث افراد کو نشانہ بنا کر ان کے امریکا میں اثاثہ جات کو منجمد کیا جاتا ہے، امریکا کے سفر پر پابندی لگائی جاتی ہے، جبکہ امریکیوں کی جانب سے ان کے ساتھ کسی طرح کی لین دین پر بندش عائد کی جاتی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ شین، زو، ہولیو اور وینگ کے خلاف فوری طور پر ویزا کی مزید پابندیاں لگانے کا اعلان کرتے ہیں، جن کے نتیجے میں وہ یا ان کے اہل خانہ امریکہ کا سفر نہیں کر سکیں گے۔
مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ بیجنگ سنکیانگ میں اقلیتوں کے ”مسلم عقیدے اور ثقافت کو مٹانے“کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ خطے میں ’خوفناک اور منظم استحصال‘کے خلاف اقدامات کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا”امریکہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے سنکیانگ میں ایغور، قزاق نسل کے افراد اور دیگر اقلیتی گروہوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور استحصال پر خاموش تماشائی نہیں بنا رہے گا۔“
پومپیو نے مزید کہا کہ امریکا کمیونسٹ پارٹی کے دیگر حکام کے خلاف بھی ویزا پابندیاں عائد کر رہا ہے جنہیں سنکیانگ میں استحصال کا ذمہ دار تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم ان عہدیداروں کے نام ظاہر نہیں کیے گئے، اور بتایا جا رہا ہے کہ ان کے خاندان کے ارکان بھی ممکنہ طور پر ان پابندیوں کے شکار ہو سکتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار کا کہنا تھا ہے کہ ”امریکا نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ سنکیانگ میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے اپنی اقلیتوں کے خلاف روا رکھے جانے والے سلوک کے خلاف اٹھ کھڑی ہو، جنھیں حراست، جبری مشقت، مذہبی تشدد، زبردستی اسقاط حمل اور اسٹرلائزیشن پر عمل کرنے کا سامنا ہے۔“
چین اپنے اقلیتی گروپ کے خلاف بدسلوکی کی اطلاعات کو مسترد کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہاں قائم کیمپوں میں پیشہ ورانہ تربیت فراہم کی جاتی ہے، جس سے شدت پسندی سے نمٹنے میں مدد ملتی ہے۔
خیال رہے کہ ایغور افراد اکثریتی طور پر مسلمان ہوتے ہیں اور یہ ترک نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ لوگ سنکیانگ کی آبادی کا 45 فیصد ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ سنکیانگ صوبے میں سخت سکیورٹی والے جیلوں میں تقریباً 10 لاکھ مسلمانوں کو حراست میں رکھا گیا ہے۔
گذشتہ ماہ ایک چینی محقق ایڈریان زینز نے اپنی یک رپورٹ میں کہا تھا کہ چین سنکیانگ میں خواتین کو نس بندی یا مانع حمل آلات اپنے جسم میں نصب کروانے کے لیے مجبور کر رہا ہے۔ کچھ ماہرین اسے مقامی مسلم آبادی کی ’نسل کُشی‘ بھی قرار دے رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے بعد اقوامِ متحدہ سے تحقیقات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
ج ا / ص ز (اے پی)