ایلوس زندہ ہوتے تو اب 75 برس کے ہوتے
8 جنوری 2010آسٹریلیا وہ سرزمین ہے، جہاں اَیلوِس نے اپنی زندگی میں کبھی قدم نہیں رکھا تھا لیکن وہاں اُن کے شائقین اب بھی بہت بڑی تعداد میں ہیں، جنہوں نے اپنے اِس محبوب فنکار کی 75 ویں سالگرہ پر متعدد تقریبات کا اہتمام کیا ہے۔ اَیلوس کے پرستار ہزاروں کی تعداد میں آسٹریلوی شہر Parkes کا رُخ کر رہے ہیں، جہاں چار روزہ سالانہ اَیلوِس فیسٹیول میں اِس امریکی گلوکار کی یاد تازہ کی جائے گی۔ جب 1995ء میں اِس میلے کا آغاز ہوا تو محض مٹھی بھر ایلوس پرستاروں نے اُس میں شرکت کی تھی لیکن اِس بار اِس میں دَس ہزار سے زیادہ شائقین کی شرکت متوقع ہے۔
جب 1977ء میں ایلوس کا محض بیالیس برس کی عمر میں انتقال ہو گیا تو وہ اپنی شہرت کے نقطہء عروج پر تھے۔ بہت سے لوگ آج بھی اِس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ ایلوس انتقال کر چکا ہے۔ حال ہی میں امریکہ میں نشریاتی ادارے CBS کی طرف سے کئے جانے والے ایک سروے میں سات فیصد امریکی باشندوں (یعنی تقریباً بیس ملین) نے کہا کہ اُن کے خیال میں ایلوس اب بھی زندہ ہے اور کہیں نہ کہیں اپنی زندگی کے دن پورے کر رہا ہے۔ گویا اپنے انتقال کے بتیس برس بعد بھی ایلوس اپنے پرستاروں میں اُتنا ہی مقبول ہے، جیسا کہ اپنی زندگی میں تھا۔
اب بھی دُنیا بھر سے سالانہ کوئی چھ لاکھ پرستار میمفس میں ایلوس پریسلے کی رہائش گریس لینڈ وِلا کو دیکھنے کے لئے جاتے ہیں۔’’فوربس‘‘ میگزین کے مطابق لوگ اب بھی شوق سے ایلوس کے گیتوں کے ریکارڈ خریدتے ہیں اور صرف گزشتہ برس کے دوران ایلوس کے لواحقین کو اِس گلوکار کے گیتوں کے ریکارڈز یا لائسنس فیس کی مَد میں ہونے والی آمدنی سے 55 ملین ڈالر حاصل ہوئے۔ گویا اِس میدان میں عصرِ حاضر کی معروف ترین گلوکارہ میڈونا بھی اپنی چالیس ملین ڈالر کی آمدنی کے ساتھ ایلوس کا مقابلہ نہ کر پائیں۔
ایلوس آرون پریسلے آٹھ جنوری 1935ء کو ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا۔ اُس کے والدین کا ہاتھ ہمیشہ تنگ رہتا تھا۔ نو عمر ایلوس مسی سپی کے چھوٹے سے شہر ٹوپیلو کے ا یک سادہ سے مکان میں پلا بڑھا۔ اُس کے ماں باپ باقاعدگی سے چرچ جاتے تھے اور چرچ ہی کی وساطت سے ایلوس کا موسیقی کے ساتھ ابتدائی تعارُف ہوا۔ اِس علاقے میں گوسپل اور بلُوز موسیقی زیادہ مقبول تھی اور یہی موسیقی بعد ازاں ایلوس کے کیریئر کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوئی۔ جس گیت سے ایلوس نے کامیابی کی دہلیز پر قدم رکھے، وہ تھا، ’’ہارٹ بریک ہوٹل‘‘، جو اُس نے 1956ء میں گایا۔ نوجوان نسل اُس کی منفرد آواز، اُس کے گٹار سے نکلنے والے جنونی سُروں اور اُس کی کمر کی ذو معنی لچک کی دیوانی ہو گئی جبکہ بزرگ نسل یہ سب کچھ دیکھ اور سن کر گویا سکتے میں آ گئی۔
ایلوس نے موسیقی کے میدان میں کئی کامیابیاں حاصل کیں اور جلد ہی اُس کا نام پوری دُنیا میں جانا جانے لگا۔ اُس کے گیتوں کے ریکارڈز بھی سامنے آئے اور اُس نے اپنے گیتوں سے سجی فلموں میں اداکاری بھی کی۔ ساٹھ کے عشرے میں اُس کے کنسرٹس ہاؤس فُل ہوا کرتے تھے۔ بے مثال کامیابی کا یہ سلسلہ 1976ء تک جاری رہا۔ تاہم جہاں سینکڑوں کنسرٹس میں شرکت نے اِس فنکار کو نڈھال کر دیا، وہیں کثرتِ شراب نوشی اور منشیات کے حد سے زیادہ استعمال نے بھی اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا۔ اُس کا جسم فربہ ہونا شروع ہو گیا۔ اُس کی زندگی کے آخری دن تنہائی اور بیماری سے عبارت تھے۔ بالآخر سولہ اگست 1977ء کو گریس لینڈ میں اُس کا انتقال ہو گیا۔
ایلوس کے 75 ویں یومِ پیدائش کے موقع پر گریس لینڈ میں واقع اُس کے گھر میں اُس کی سابقہ اہلیہ پریسلا اور بیٹی لیزا میری پریسلے سالگرہ کا کیک کاٹیں گی۔ اِس موقع پر ایلوس کی زندگی سے متعلق تین نئی کتابیں بھی جاری کی جا رہی ہیں۔ اب تک ایلوس کی شخصیت اور فن پر پچاس سے زیادہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: گوہر نذیر گیلانی